اے چاند محرم تو ہی بتا خاتون کا چاند کہاں ہے
آباد ہے دنیا ساری زیرا کا چمن ویران ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
کہتی تھی سکینہ عابد کو اس قید میں میں مر جاؤں گی
چھوڑو نہ اکیلا بھائی تاریک بہت زنداں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
دیکھا نہ سنا ظایر ایسا زخموں سے بدن ہے چور مگر
جاری ہے زبان پہ ذکر خدا گردن پہ خنجر رواں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
تو پر جبرئیل کی زینت کا کیوں لاشہ تیرا پامال ہوا
بے گوروکفن ہو بھائی میرے زینب کو یہی ارماں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
اے کوفیوں میں ہوں بنت علی اور وارث چادر زیرا کی
دیکھو نا تماشا شرم کرو اب زینب سر عریاں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
اولاد کا غم بھائیوں کے ورم کٹتا ہے کلیجہ قدم قدم
ھائے کیسے اٹھائے خون بھری اکبر کی لاش جواں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
شبیر چلے جب کربل کو صغری نے دامن تھام لیا
سنبھال کے رکھنا بابا میرے علی اصغڑ بہت ناداں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا
تنویر اٹھا کے ہاتھوں میں سید نے سوال آب کیا
تم بھی ہو مسلمان رحم کرو اصغر کی خشک زباں ہے
اے چاند محرم تو ہی بتا