Categories
لیرکز

اے چاند محرّم کے تو بدلی میں چلا جا

اے چاند محرّم کے تو بدلی میں چلا جا
تجھے دیکھ کے مر جائے نہ بیمار ہے صغرا

گھر زہرا کا لٹنے کی خبر تو نے سنائی
تجھے دیکھ کے روتی ہے محرّم میں خدائی
چودہ سو برس بیتے سب کرتے ہیں شکوہ

ملنے کےلئے بھائی کو بے چین بڑی ہے
کب سے علی اکبر کی یہ راہوں میں کھڑی ہے
بچھڑی ہے یہ مدّت سے اسے تو نہ نظر آ

قاصد کو دیا خط میں یہ پیغام لکھا کے
اک بار تو مل جا مجھے سینے لگا کے
پتھرائی ہوئی نظریں کب دیکھیں گی چہرہ

ویران گھروں میں نہ اسے نیند ہے آتی
اکبر کی جدائی ہے اسے خون رلاتی
قدموں کے نشاں ڈھانپ کے بیٹھی ہے سرِ راہ

گن گن کے جو صغرا نے یہ دن ہے گزارے
زندہ ہے تو اکبر کے وعدوں کے سہارے
دن رات تڑپتی ہے اسے اور نہ تڑپا

بھیا کی جدائی میں پریشان ہے رہتی
ہر روز یہ نانا کو رو رو کے ہے کہتی
اکبر نہ ملا نانا میں مر جاوؑں گی تنہا

وعدہ جو کیا بہن کو سینے سے لگا کے
میں شادی کروں گا تو تیرے پاس ہی آ کے
میں سات محرّم کو لوٹوں گا نہ گھبرا

رونے نہیں دیتے مجھے راتوں کو مسلماں
بیماری سے بے حال ہوں کچھ روز کی مہماں
ہر سمت سے ہے مجھ کو اب موت نے گھیرا

بہنوں کا تو بھائیوں سے رشتہ ہی عجب ہے
تم بھول گئے مجھ کو یہ کیسا غضب ہے
اس آس پہ زندہ ہوں دیکھوں تیرا سہرا

صغرا کے نصیبوں میں تو رونا ہی لکھا ہے
سردار معصومہ کو ملی کیسی سزا ہے
خط آیا نہ اکبر کا روتی رہی صغرا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *