Categories
افسانے

بے حرمتی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کرایہ کے گھرں میں رہنے میں جو مشکلات ہیں یہ تو وہی جان سکتا ہے جس کا اپنا گھر نہی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ کانٹوں کے گھروں میں پھولوں پر کیا گزرتی ہے۔ بڑی مشکل سے ابھی چھ مہینے پہلے بوریا بستر اٹھائے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوئے تھے لیکن اس گھر کے حالات ہی نرالے نکلے۔ لگتا تھا گھر چوہوں نے کرایہ پر لیا ہوا ہے اور ہمیں تو صرف زبردستی رکھا گیا ہو۔ خصوصا رات کو آپ کو نہ صرف چوہے لہکتے، چہکتے ملتے تھے بلکہ ان کی اچھل کود دیدنی ہوتی تھی۔ اوپر سے ہمیں ڈرا دیا گیا کہ اس گھر میں ضرور کوئی ان دیکھی شخصیت رہتی ہے۔ پہلے تو ہم نے یقین نہی کیا لیکن چھ میہنوں میں شخصیت رہتی تھی یا نہی دل یو ضرور وہم ہو گیا کہ کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔ بغیر کسی وجہ سے بچے خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ بعص اوقات چیخے مار کر رونے لگتے تھے۔ ایک کمرہ تو ایسا تھا کہ آپ اس کمرہ میں سو جائیں تو آپ کی سانس رکنے لگے۔ ہم نے جب ایک جاننے والے سے اس کا ذکر کیا کہ یہ معاملہ ہے تو تفصیل جان کر بولے کہ چھوڑیں جناب ایسی شخصیات چوہوں کے ساتھ کہاں رہ سکتی ہیں۔ لیکن گھر واپس آ گر نجانے کیوں یہ بات راسخ ہو گئی کہ ضرور ان شخصیات کے بچے چوہوں کے روپ میں ببانگ دہل ہمیں اور ہمارے بچوں کو ڈراتے اور خوفزدہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان دیکھی شخصیت چوہوں کے ساتھ نہی رہ سکتی تو یہی چوہے ہی ان دیکھی شخصیت ہیں۔ اپنی تو خیر ہمیں کوئی فکر نہی تھی ہم کوئی ڈرنے والے تھوڑی تھے۔ دل کے بہلانے کو ہم نے یہی یقین دل کو دے رکھا تھا لیکن بچوں کی وجہ سےمکان چھوڑنا پڑا۔ سامان جو پہلے ہی غدر کی کیفیت کو ظاہر کرتا تھا حیرانی سے ہمیں تک رہا تھا کہ ایک بار پھر جنگ کا وقت قریب ہے۔ دیکھیں اب کیا کیا بچ جاتا ہے۔ کس شے کے پاؤں ادھڑتے ہیں اور کس شے کے بازو۔ کون سی شے اسی گھر میں چھوڑ دی جائے گی اور کون سے ساتھ جائے گی۔ ہمارا تو منہ دیکھنے کا شیشہ بھی جو ہمیں چار پانچ ٹکڑوں میں پورا دکھاتا تھا التماس کر رہا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔ گھر ڈھونڈنا شروع ہوئے۔ ہر گھر میں ہزار کیڑے۔ ہمیں آج تک سمجھ نہی آئی کہ مالک مکان اپنے رہنے والے گھر کو تو صیح سنوار کے بناتے ہیں اور جو گھر کرایہ پر دینے ہوں انہیں ایسا کیوں بناتے ہیں کہ اللہ توکل پر رہنا پڑے اور کرایہ الامان الحفیظ۔ ۔

خدا خدا کر کے ایک گھر رہنے کے قابل ملا ،منتقلی ہوئی ایسے ہی جیسے ہندوستان پاکیستان بننے پر ہوئی تھی۔ سامان سمیٹے ہوئے کسی کی انگلی پر زخم تھے تو سامان ڈھوتے ہوئے کسی کے پاؤں پر۔ کسے کے سر پر گومڑ اور کسی کی پسلی اتر گئی تھی۔ غیر ضروری سامان پھینگا گیا لیکن شکر ہے اس غیر ضروری سامان سے کچھ بچا لیا ورنہ تو سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہی جانا پڑتا۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ ہمسائیوں سے علیک سلیک شروع ہوئی۔ دائیں طرف ہمارے ہمسائے گلی کے چوکیدار ٹائپ کے ہمسائے نکلے۔ ہر وقت گلی میں موجود۔ ہم دفتر سے گھر جانے کے لئے نکلے تو فٹ سے اپنے دروازے سے برآمد ہوئے اور بولے۔ گلی میں گند نہی ڈالنا۔ ہم نے ازراہ یقین پوچھ لیا کہ یہ جو آپ کی بندھی ہوئی بکیر کا گند ہے اسے کیا کہتے ہیں لیکن مجال ہے ہماری بات انہوں نے سنی ہو۔ وغیرہ وغیرہ کرتے کرتے ہمارے دس منٹ تو ضائع کر دئے۔ لیکچر سن کر ہم نے تو دل میں ٹھان لی بھائی صاحب اس کے منہ نہی لگنا۔ بندہ حال چال پوچھتا ہے، خیر خیریت دریافت کرتا ہے لو جی بڈھے کا تو دماغ ہی خراب ہے۔ سنکی کہیں کا۔ کچھ دنوں میں ہمیں رپورٹ مل گئی کہ بڈھا واقعی سنکی ہے۔ تو زیادہ تر ہماری کوشش یہ تھی کہ اس سے دور ہی رہا جائے۔ لیکن آتے جاتے سلام دعا تو ہو ہی جاتی تھی کیونکہ موصوف زیادہ تر گلی میں ہی رہتے تھے اور اسی لئے ہم نے ان کا نام چوکیدار رکھ چھوڑا تھا۔

ایک چھٹی کے دن ہم اپنی چھوٹی بیٹی کو باہر گلی میں لائے تو دیکھا تو ہمارے دروازے کے پاس کوڑا کرکٹ پڑا تھا۔ ہمارا ہمسائیہ قریب ہی اپنی دیوار کے ساتھ بندھی بکری کو گھاس ڈال رہا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے یہ کوڑا کس نے پھینکا ہے؟ پہلے تو اس نے گھوڑ کر دیکھا پھر بولا کہ” مجھے کیا معلوم”۔ ہم نے اس سے بڑے آرام سے کہا “انکل آپ زہادہ تر تو ادھر ہی ہوتے یہں اگر آپ کو معلوم ہے تو بتا دیں” آگے سے تراخ سے بولے “آپ بھی تو کہیں پھینتے ہیں وہی پھینگ گئے ہونگیں جناب ہم تو باہر ڈربے میں پھینگے ہیں جب سے آپ نے بتایا تھا۔ لیکن انہوں نے یہ بات ان سنی کر دی۔ اور پھر بکری سے گفت و شنید کرنے لگے۔

اس بات نے تو ہمارے غصہ کو مہمیز کر دیا۔ ایک تو عزت دو آگے سے سر پر چڑھتے ہیں۔ ہم نے چھوٹی بیٹی کو گھر کے اندر چھوڑا اور باہر آ کر گلی کے ایک دو گھڑوں سے پوچھا۔ کہ کوڑا کس نے پھینکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے نہی پھینگا۔ ہم نے گھر سے واپبر اٹھایا اور کوڑے کو گلی میں پھیلانا شروع کر دیا۔ انکل تو فورا آ دوبدو ہو گئے۔ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے درشت لہجے میں کہا۔

“آپ کو نظر نہی آ رہا۔ گلی کا کوڑا ہے گلی میں پھیلا رہا ہوں” ہم نے اپنے غصے کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

“تمہے مسجد نظر نہی آ رہی۔ سارے نمازی ادھر سے گزرتے ہیں” انہوں نے وائپر پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ ہمارے گھر کے بلکل سامنے ہی مسجد تھی۔

“کون سی مسجد؟ مسجد والوں کو آپ کی بکری کا گند نظر نہی آتا۔ آج اگر میں نے گلی میں نہ پھیلایا تو لوگ ادھر ہی ڈالنے لگ جائیں گے سمجھ نہی آ رہی آپ کو۔” میں نے وائپر پر گرفت مظبوط کرتے ہوئے کہا ۔وائپر ہم نے زور سے کوڑے پر مارا اور پھر پھیلانا شروع کر دیا

اسی اثنا میں انہوں نے وائپر پکڑنے کی کوشش کی تو

“خبر دار وائپر کو ہاتھ لگایا” ہم نے بھی غصے سے کہا۔ سمجھتے کیا ہیں آپ خود کو۔ آپ سے پوچھا کہ کس نے کوڑا ڈالا آپ جواب دینے کی بچائے الٹی سیدھی باتیں کر رہے ہیں۔”

“میں نے ڈالا ہے کر لو جو کرنا ہے”

“میں بھی گلی میں پھیلاؤں گا آپ نے بھی جو کرنا ہے کر لو”

۔ اسی اثنا میں انکل نے فورا گلی کے دروازے کھڑکانا شروع کر دئیے کہ لوگو باہر آؤ لوگو باہر آؤ۔ ہم نے کوڑا پھیلانا بند کیا اور اس طرف متوجہ ہوئے۔ تو دیکھا کہ چھ سات لوگ جمع ہو چکے تھے۔ اور وہ ان سے فرما رہے تھے۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا یہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں دیکھ لو اپنی آنکھوں سے ہماری مسجد کی بے حرمتی کر رہا ہے یہ مردود اللہ کے گھر کی بے حرمتی۔ ۔جلدی کرو جلدی کرو مولوی صاحب کو بلاؤ۔

اور ہم حیرانی سے ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *