Categories
افسانے

بے کسی

میں دلہن بنی گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔ کمرے میں موجود ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈک میرے جسم کی حرارت کو ختم کرنے کی بجائے بڑھا رہی تھی۔ دل کی عجب حالت تھی۔ اتنی تیز دھڑکن کا میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ کبھی بڑھ رہی تھی کبھی کم ہو رہی تھی کبھی گم ہو رہی تھی مجھے ایسا لگتا تھا جیسے آج میرا آخری دن ہے۔ آخری ہی تو تھا آج مجھے اپنا آپ کسی اور کو سونپ دینا تھا۔ اسے جسے میں بلکل نہی جانتی تھی۔ مگر جو بچھلے کچھ دنوں سے میری سانسوں کے زیرو بم میں ہچکولے لیتا رہا تھا۔ وقت بیت رہا تھا۔ انتظار قیامت کا روپ دھار رہا تھا۔ لمحے صدیوں پر محیط ہو رہے تھے کہ میرے زہن کے نہاں خانوں میں امی کی پکار سنائی دی۔

شاداں نی شاداں” ماں نے مجھے آواز دی میں ابھی کالچ سے گھر کے دروازے پر پہنچی  تھی کہ ماں کی پکار سن کر رک گئی۔ ماں کے ہاتھوں میں ایک خوبصورت سا واٹر سیٹ تھا۔ میری بڑی بہن ساتھ تھی جس کے ہاتھوں میں اچھے سے ڈنر سیٹ کے کچھ برتن تھے اور ماں چاہتی تھی کہ کچھ میں پکڑ لوں تاکہ زرا احتیاط کے ساتھ وہ برتن ہمارے گھر میں داخل ہو سکیں۔  “خیر تو ہے، آج کوئی سپیشل مہمان آ رہا ہے کیا” میں نے حیرانی سے کچھ برتن پکڑتے ہوئے کہا۔ کیونکہ ہمیشہ جب کوئی امی کے رشتہ داروں میں سے آتا تھا تو برتن ساتھ والی آنٹی سے لئے جاتے تھے۔ ہاں! بہت ہی سپیشل۔ ببلی آ رہی ہے۔” امی نے بہت خوشی سے کہا۔

” ببلی باجی! ارے انہیں ہمارے گھر کا راستہ کس نے دکھا دیا”۔  “چپ رہ۔ بدتمیز” ماں نے مجھے جھاڑا۔ “پورے دس سالوں کے بعد امریکہ سے آ رہی ہے۔ بھائی کی شادی کرنا چاہ رہی ہے۔ دعا کرو ماجدہ یا واجدہ میں سے کوئی پسند آ جائے۔ ماں کے چہرے پر حسرت اور امید کے دئے جل رہے تھے

ببلی باجی امی کے کزن کی بیٹی تھی۔ دو بہن بھائی تھے بھائی ببلی باجی سے دس سال چھوٹا تھا کوئی بارہ سال پہلے میرے ابا اور ببلی باجی کے والدین ایک حادثے میں چل بسے تھے۔ اور دس سال پہلے ببلی باجی بیاہ کر امریکہ چلی گئی تھیں۔ تب سے ان کی کوئی خبر نہی تھی۔ میں اس وقت شائد آٹھ نو سال کی تھی ہلکی ہلکی یادوں کے انبار آنکھوں کی پتلیوں کو نمناک کر رہے تھے آنسو تھے کہ آج انتظار کرنا بھول گئے تھے۔ کیونکہ ببلی باجی کا سنتے ہی ابا کی یاد نے مجھے ایسے اندھیرے کنویں میں دھکیل دیا تھا کہ جہاں روشنی ناپید تھی اور یہی میری زندگی تھی۔

میرا نام شاہدہ ہے گھر میں شاداں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہم تین بہنیں ہیں بڑی ماجدہ، اس سے چھوٹی واجدہ اور پھر میں۔ چھوٹے سے دو کمروں کے مکان میں سنا ہے ابا کے ہوتے ہوئے بہت اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ خوشیوں بھرے دن تھے کہ ایک دن اچانک ایک دور پرے کے رشتہ دار کی فوتگی پر جاتے ہوئے ببلی باجی کے والد کی گاڑی کا ایسیڈنٹ ہوا وہ ابا کو ساتھ کے کر جا رہے تھے اور ہمارے گھر میں جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ غرپت کیا ہوتی ہے اس کے معنی معلوم ہو گئے۔ بے وقتی کیا ہوتی ہے  اس کا ادراک ہو گیا۔ بے حسی کیا ہوتی ہے اس کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ اماں نے اپنی ممتا کے ہالے میں بیٹیوں کو پالنا شروع کیا۔ ماجدہ آپی نے ماں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ کپڑے سلائی کرنا، چھوٹے موٹے کام کرنا، گھروں میں جا کر کپڑے دھونے کا فریضہ سر انجام دینا۔ یوں زندگی کی گاڑی تو چلتی رہی لیکن ہر موڑ پر دکھ کی آنچ سے پھسلتی رہی۔ ماجدہ تو پڑھ نہ سکی، واجدہ نے میٹرک بڑی مشکل سے کیا اور چار سالوں سے گھر بیٹھی تھی۔اور سہانے سپنوں کی وادی می ہر وقت کھوئی رہتی۔  لیکن بچپن کی حسرتیں میرے دل و دماغ میں ایسے سمائی کہ میں نے کتابوں کو دوست بنا لیا۔ جب بچیاں گڑیا کھیلنے کی ضد کرتی تھی میں روٹی میں لپٹی اخبار پڑھا کرتی۔ جہاں سے کوئی کتاب ملی پڑھ لی۔ بھوک لگی کتاب پڑھ لی، پیاس لگی کتاب پڑھ لی اور ان کتابوں نے مجھے خوابوں کی دنیا بسانے کے لئے مجبور کر دیا۔ ظاہری طور پر میں بہت سنجیدہ اور مغرور تھی۔ میٹرک بہت اچھے نمبروں سے کر کے سکالر شپ ہر کالچ میں پڑھ رہی تھی لیکن اندرونی طور پر میں سپنوں میں رہتی تھی۔ ایک عالیشان گھر میں نوکر چاکر ایک شہزادہ اور میں۔ خوابوں میں آرڈر دیا کرتی۔ کہانیاں سجایا کرتی اور پھر چونک کر واپس اپنے اردگرد کے ماحول کو حیرانی سے تکا کرتی۔

باجی ببلی آئیں تو میرے لئے حیرانی کے ساتھ ساتھ میرے خوابوں کا عکس بن کر آئیں۔ یہ لمبی کار، یہ زرق برق لباس، شاندار شخصیت ان کے سامنے ہم سب ایسے باادب تھے جیسے وہ بادشاہ سلامت ہوں اور ہم عوام۔ لیکن ان میں زرہ بھی غرور نام کا نہی تھا۔ بہت ملائم بہت پر اثر شخصیت۔ ماجدہ اور واجدہ نے بڑے سلیقے سے مہمانداری کی۔ انہوں نے ماجدہ اور واجدہ کو پسند کرنے کی بچائے مجھے پسند کر لیا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹآ۔ میں نے تو خواب میں بھی نہی سوچا تھا۔ میں شہزادے کے سپنے ضرور دیکھتی تھی زندگی میں شہزادہ ہی مل جائے گا کبھی نہی سوچا تھا۔ میں اپنے گھر کی کی خوشیوں کے لئے بہنوں کی قربانی کےلئے بہت کچھ کروں گی بس بڑے گھر کی ہو جاؤں۔  میں نے دل میں سوچا۔ ببلی باجی تصویر لائی تھی۔ اور چاہتی تھی امریکہ واپس جانے سے پہلے بھائی کے شادی کر جائیں۔ اکیلا رہتا ہے۔ بڑا گھر ہے۔ نوکر چاکر ہیں خوبصورت ہے ہزار دفعہ کہا لیکن شادی کے نام سے بھاگتا ہے لیکن اس بار تو میں نے کوئی نا نہی سننی۔ شادی تو اب وہ میری پسند سے ہی کرے گا۔

ہمارے حالات کو شائد وہ پہلے ہی جانتی تھیں اس لئے اماں سے کہ گئیں کہ کسی شے کی بھی فکر مت کیجئے گا۔ سب کچھ میں خود کروں گی۔ اماں نے ایک دو دن کا ٹآئم مانگا جواب دینے کے لئے اور وہ چلی گئیں۔ اماں پریشان تھی۔ واجدہ حیران تھی اور ماجدہ مجھے گھور رہی تھی۔ مگر آخر کار ماجدہ نے قربانی دی ہمیشہ کی طرح واجدہ نے دل پر پتھر رکھا اور اماں نے مجبور ہو کر ہاں کر دی۔

میں جب بھی اکیلی ہوتی تصویر نکال لیتی۔ گھنٹوں دیکھا کرتی۔ نزیر ایک خوبصورت شخصیت کا مالک تھا بلکل ببلی باجی کی طرح۔ عمر کوئی تیس سے پینتیس سال ہو گی۔ لیکن حسین لڑکیوں سے بھی زیادہ تھا۔ وہ جسے کہتے ہیں نا کہ ہاتھ لگانے سے بھی میلا ہو جاتا۔ سوچیں مجھے تنگ کرنے لگی، جسمانی خواہشات اٹھکیلیاں کرنے لگی۔ خوبصؤرت تو مجھے بھی کہا جاتا تھا لیکن نزیر تو میرے خوابوں کے شہزادے سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ ہزار پلان بننے بگڑنے اور بدلنے لگے کہ میں کیسے اسے دیکھوں گی، کیسے چھوؤں گی کیسے بات کروں گی کیسے نکھرے دکھاؤں گا۔ اور کیسے اس کا بن کا اسے اپنا بناؤں گی کہ میں اس کے نام کا سہاگ کا جوڑا پہن کر دعاؤں کے نرغے میں دلہن بن گئی۔ ببلی باجی نے جو کہا اسے پورا کر دکھایا۔

شادی ہال سے تمام مہمانوں کے رخصت ہونے سے پہلے ہی میں اور نزیر باجی ببلی کے ساتھ گھر آ گئے۔ باجی ببلی نے مجھے بہت پیار اور مان سے کمرہ دکھایا۔ گھر تو جو تھا سو تھا کمرہ گھر سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ میرے خواب جیسے تعبیر بن کر میرے چاروں طرف ناچ رہے تھے۔ گا رہے تھے گنگنا رہے تھے۔ ہر شے میں نفاست، ہر شے میں سلیقہ پورے گھر میں خاموشی کا راج اور میں اور میرے سپنے نزیر کا انتظار کرنے لگے۔

کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سن کر میرے جسم میں چنگاریاں دوڑنے لگی تھی۔ آج میں میں نہی رہوں گی شاہدہ نزیر ہو جاؤں گی۔ شرم کے مارے میں نے سر اور جھکا لیا۔ آج مجھے معلوم ہو رہا تھا کہ نئی دلہن کا گھونگھٹ کیوں نکالا جاتا ہے تاکہ اداسی، خوشی، شرم اور جسمانی خوایشات کے رنگ چھپے رہیں۔ نزیر نے سلام کیا اور میرے قریب بیٹھ گئے۔ پرفیوم کی خوشبو تھی یا ان کی جسم کی حدت میرے کان بلاوجہ سرخ ہونے لگے تھے۔ سانسوں کا زیروبم بکھرنے لگا تھا۔ ڈوپٹہ کی اوڑ سے میری کوشش تھی کن اکھیوں سے انہیں دیکھ سکوں۔  انہوں نے ایک انگوٹھی نکالی اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے۔ “یہ میں آپ کے لئے لایا تھا” لہچے میں سب کچھ تھا لیکن نجانے کیوں مجھے لگا بیزاری سے کہ رہے ہیں۔ میرے اپنے سارے منصوبے کہ کیا کہوں گی، کیسے کہوں گی، دھرے کے دھرے رہ گئے اور گھبرائے ہوئے لہچے میں بس اتنا ہی کہ پائی “آآ  آ پ ہی پہ پہ نا دیں”۔ رات گزرتی رہی، موجیں چڑھتی رہیں، میں سوتی رہی کبھی جاگتی رہی لیکن شاہدہ سے شاہدہ نزیر نہ بن سکی۔

دو دن کے بعد باجی ببلی واپس امریکہ چلی گئیں۔ اور پورے گھر میں میں تھی اور میرے حسرتیں۔ میرے پاس سب کچھ تھا۔ میں نے سب کچھ حاصل کر لیا تھا لیکن میں عورت نہ بن پائی تھی۔ ہفتہ گزر گیا تھا۔ آج ناشتہ کرتے ہوئے نزیر بہت خوش تھے۔ اور میں نے بھی تیہہ کر لیا تھا کہ آج شرم کے پردے میں خود اتاروں گی ورنہ کب تک خوابوں کے دیس میں ان دیکھے شہزادے کی بانہوں کی زینت بنتی رہوں گی۔

“آج آپ خوش لگ رہے ہیں” میں نے چائے پیتے ہوئے کہا۔

“ہنہ۔۔۔۔ہاں آج بڑے دنوں کے بعد میرا سب سے بہترین دوست ملنے آ رہا ہے” انہوں نے اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔

“دوست!” دل ہی دل میں میں پھر اداس ہو گئی۔

“ہاں، باہر گیا ہوا تھا آپی نے اتنی جلدی سب کچھ کر دیا کہ وہ آ ہی نہی سکا۔ آج وہ ادھر ہی رہے گا “

 “جی اچھا” میں نے مختصر جواب دیا

شام کو نزیر کے دوست آ گئے۔ اور میں ایک اور رات کے ضائع ہونے کا صرف افسوس ہی کر سکتی تھی۔ نجانے کیا بات تھی آج میں جلدی سو گئی تھی۔ رات کے کسی پہر میری آنکھ کھلی تو گلا خشک تھا، سر بھاری ہو رہا تھا اور شدید پیاس لگ رہی تھی۔ میں اٹھی کہ پانی پی لوں۔ دیکھا تو نزیر بیڈ پر نہی تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ آج تو ان کے دوست نے آنا تھا اور مجھے انہیں خوش آمدید کہنا چاہئے تھا اور میں سو گئی۔ گنودگی میں میں نے سوچا شائد واش روم میں ہوں۔ لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد بھی وہ نہ آئے تو میں نے انہیں آواز دی۔ وہ باتھ روم میں نہی تھے۔میں نے اپنا حلیہ شیشے میں درست کیا۔ میں کمرے سے نکلی اور سوچا کہ جا کر معزرت کر لوں۔ ٹی وی لاؤنچ میں پہنچ کر میں ششدر رہ گئی۔ نزیر اپنے دوست کو اپنا لباس بنائے مدہوش پڑا ہوا تھا۔ اور میں بےکسی کی تصویر بنی خشک پتوں کی طرح منہ زور ہواؤں کے دوش پر ڈولتی جا رہی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *