Categories
طنزومزاح

جادو ٹونہ

جس گھر میں ہم رہتے ہیں وہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ مالک مکان نے گھر اس طرح بنوایا ہوا ہے کہ نچلا حصہ اوپر والے حصے سے جدا بھی ہے اور ملا ہوا بھی ۔ گلی سے دو دروازے کھلتے ہیں ایک نچلے حصے کی طرف اور دوسرا اوپر کے حصے کی طرف۔ اوپر جانے کےلئے سیڑھیاں استعمال کی جاتی ہیں اور ایک دیوار سیڑھیوں کو نچلے حصے کے صحن سے جدا کرتی ہے۔

کچھ عرصہ بیشتر اوپر والے حصے میں نئے کرایہ دار آئے۔ ایک بیوہ ماں، اسکی بیٹی اور بیٹی کا شوہر۔آہستہ آہستہ علیک سلیک ہوئی تو اچھے لوگ ثاپت ہوئے یوں آنا جانا شروع ہوا۔ آنٹی بہت اچھی تھیں۔ اس لئے ہم نے ان کا نام چنگی آنٹی رکھا ہوا تھا۔چنگی آنٹی کی بیٹی کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی تو وہ کچھ عرصے کے لئے دوسرے شہر اپنے سسرال چلی گئی تاکہ بچے کو گرمی سے بچایا جا سکے۔ کیونکہ پھر چنگی آنٹی اکیلی تھیں اس لئے انہوں نے اپنی ایک بیوہ بہن کو بلوا لیا۔ کچھ دنوں میں میری بیگم کو احساس ہوا کہ وہ آنے والی بہن سر پر ہمیشہ ڈوپٹہ لپیٹے رکھتی ہے۔ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ آنے والی آنٹی گنجی ہے۔ اور تب سے ہمارے گھر میں وہ گنجی آنٹی کے نام سے مشہور ہو گئی۔ جب کوئی بات ہوتی تو ان کے نام کی بچائے چنگی آنٹی اور گنجی آنٹی س ایکدوسرے کو بتایا جاتا تھا۔

گرمیوں کے دن تھے اور گرمی بھی پچاس ڈگری کی۔ صحن میں سر شام چھڑکاؤ کر کے کولر اور پنکھا چلا دیا جاتا تھا اور کچھ بچت ہو جاتی تھی جھلسنے سے۔ زندگی واقعی سلگتی سی چتا بنی ہوئی تھی۔ مہنگائی کی گرمی۔ موسم کی گرمی اور اندر کی گرمی ۔ سنا تھا کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے لیکن گرمی کو گرمی نہی کاٹتی۔ تو بات ہو رہی تھی کہ ایک دن ہم اللہ تعالی سے ہم کلام تھے کیونکہ بیگم چنگی آنٹی کے پاس گئی ہوئی تھی ان کے بلاوے پر اور ہم نے سوچا آفس میں دفتری معاملات کائنات کے خالق سے بات چیت نہی کرنے دیتے اور گھر میں بیگم۔ بچے سو رہے تھے۔ آسمان صاف دکھائی دے رہا تھا تو پھر کیوں نہ کچھ دکھ سکھ کر لیا جاتا کہ اچانک ہماری بیگم گھبرائی ہوئی اور خوفزدہ ایکسپریشن کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی کہ سلسلہ رازونیاز منقطع ہو گیا۔ بیگم کو اس حالت میں دیکھ کر پہلے تو ہمارا دل دھڑکا کہ خدا خیر کرے۔ پھر تسلی دی ضرور کوئی لال بیگ دیکھ لیا ہو گا۔ بیگم ہماری دنیا کی ہر شے سے ڈرتی ہے نہی ڈرتی تو بس اپنے مجازی خدا سے بقول اس سے خدا سے ڈرنا بھی نہی چاہئے۔

“کیا ہوا؟ خیر ہے نا” میں نے لہجے میں حیرانی سموتے ہوئے کہا
“وہ۔۔وہ ہ ہ ہ!!!! بلاتکان بولنے والی خاتون کے لہچے میں لکنت آ جائے تو سمجھ جائیے کہ کوئی گھمپیر مسلئہ ہے
“ہاں ہاں۔۔۔”۔میں نے قریب جا کر پوچھا۔ “بتاؤ کیا ہوا کیوں پریشان ہو رہی ہو اور پریشان کر رہی ہو”
“وہ سچ کہتے تھے اس گھر میں کچھ ہے۔” بیگم نے ایک ہی سانس میں اعلان کیا
کیا ہے اس گھر میں” اب حیران ہونے کی میری باری تھی۔ اور میری یاداشت نے ماضی کھنگالنا شروع کر دیا۔

مجھے ایک ایک کر کے وہ ساری باتیں یاد آنے لگیں جو کچھ عرصے سے سنتے اور دیکھتے آئے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتوں جو پہلے اس گھر میں رہتی تھی سے ہماری بیگم کا ملنا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اس گھر میں کوئی بزرگ جن ٹائپ کی شے رہتی ہیں تب سے میری بیگم پریشان تھی۔
دروازے خود کیسے کھل جاتے ہیں؟ حالانکہ میں نے لاکھ دفعہ سائنسی طور پر سمجھانے کی کوشش کی کہ ہوا کے دباؤ کا اثر ہے ورنہ دروازوں کی کیا مجال۔
فرج کا دروازہ کیسے کھلا رہ جاتا ہے؟ میں نے بتایا کہ جنوں شنوں کو جب زیادہ گرمی لگتی ہو گی تو شائد وہ فرج میں گھس جاتے ہوں۔ اور دروازہ بند کرنا بھول جاتے ہوں۔
پیسے کم کسیے ہو جاتے ہیں؟بہت دفعہ سمجھایا ہے کہ حساب رکھا کرولیکن مجال ہے کہ اس پر عمل ہوا ہو۔

اور اب گھبرائی ہوئی بیگم اور ڈر گئی تھی۔ ہوا کیا ہے میں نے مصنوعی غصے سے پوچھا۔

دراصل اوپر چنگی آنٹی نے بلایا تھا۔ وہ بہت پریشان ہیں۔ مصلی بچھائے نماز اور قرآن پڑھ رہیں ہیں۔ کہتی یہں کہ انہوں نے نہا کر کپڑے پہنے اور کپڑے جدھر ہاتھ لگاتی ہیں بھرتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ایک اور سوٹ بدلا اس کا بھی یہی حال ہوا اس لئے وہ سمجھتی ہیں یا تو کوئی جادو ٹونہ ہہو رہا ہے ان پر یا یہ کسی جن کی کارستانی ہے۔
ہمارے زہن نے فورا سراغ رسانی شروع کی۔ “اور وہ گنجی آنٹی کہاں ہیں؟ ہو سکتا ہے انہوں نے کپڑے مانگے ہوں اور چنگی آنٹی نے نہ دیئے ہو اور اس نے کوئی کام دکھایا ہو۔” میں نے بستر پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔

“ارے نہی۔ بہن ہیں وہ ان کی۔ وہ باہر بیٹھی یا اللہ خیر کا ورد کر رہی ییں۔ مجھے بھی منع کر رہی تھیں کہ اندر مت جاؤ۔ وہ کہتی ہیں یا تو چنگی آنٹی کا آخری وقت آ گیا ہے یا کوئی جن بھوت ہے۔ اللہ اس کی موت آسان کرے۔ اللہ اس کے گناہ معاف کرے۔ یا اللہ میری بہن کو اچھی موت دینا۔ اور چنگی آنٹی بھی گنجی آنٹی کے کہنے سے یہی سمجھ رہی ہیں کہ بس وہ مرنے والی ہیں یا جن بوت انیہں تنگ کر رہے ہیں” بیگم نے اتنی جلدی بتایا جتنی جلدی وہ رقم خرچ کرتی ہیں۔

“داماد کہاں ہے ان کا؟” میں نے پوچھا
“وہ بیوی کو لینے گیا ہے۔” بیگم نے ڈرتے ڈرتے اوپر دیکھتے ہوئے کہا۔یکدم لائٹ چلی گئی ۔ اندھیرا پھیل گیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ واقیعی کچھ ہونے والا ہے۔

بیگم گھبرا کر ہم سے لپٹ گئی۔ “کیا ہوا” میں نے اسے اور قریب کرتے ہوئے کہا بچوں کے بعد ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں۔
“۔۔۔وہ ۔۔۔۔” بیگم بس اتنا ہی کہ پائی۔ میری جسارت نے اسے سب کچھ بھولنے پر مجبور کر دیا تھا۔میں نے اسے تسلی دی۔” تم کیوں خوفزدہ ہو۔ جن بھوت تو ان کو تنگ کر رہے ہیں اورتم بلاوجہ کے پریشان ہو رہی ہو۔” میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔

“جن اوپر آ سکتے ہیں تو نیجے بھی آ سکتے ہیں” اور مجھ سے الگ ہو کر کچھ آیات کا ورد کرنے لگی اور سوئے ہوئے بچوں پر پھونکیں مارنے لگیں۔

“ویسے جن نے ہمارے گھر آ کر کیا کرنا ان کے ہاں چڑیلوں کی کمی ہے” موقع ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر جلے ہوئے لہجے میں ایک آہ کے ساتھ کہا

بیگم نے ہمیں گھور کر دیکھا۔ اور یہی میں چاہتے تھا کیونکہ بیگم کی آدھی پریشانی کم ہو گئی تھی

“آنٹی کہتی ہیں کہ ان کے داماد کو فون کر دیں۔ کہ جلدی گھر آئے۔” بیگم نے بچوں پر ورد ختم کرنے کے بعد کہا۔

بیگم نے جیسے ہی مجھ سے یہ کہا کہ اچانک گنجی آنٹی کی اؤاز سنائی دی وہ بیگم کو پھر بلا رہی تھی۔

بیگم نے ہماری طرف دیکھا پھر اوپر کی طرف دیکھا اور پھر ایسے ہو گئی جیسے ساکن ہو اور آہستہ سے کہنے لگی “ان سے کہ دیں میں سو گئی ہوں۔”

“کیا کرتی ہو۔ ” میں نے گھورتے ہوئے کہا۔ جاؤ اور پتہ کرو کہ کیا مسلئیہ ہے۔ ایسا نہ ہو جھوٹ سے جن کو نفرت ہو اور وہ نیجے ہی آ جائے۔

“مسلئہ کیا ہے جن یہ کام کر رہا ہے اور کیا۔ نہ جی نہ میں تو نہی جاتی۔” بیگم نے یقین سے کہا
“اچھا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ” میں نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہا۔

“نہی آنٹی کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے ہیں وہ کہتی ہیں کہ فون کر دو جلدی سے۔” بیگم لگتا تھا اب شائد ہی اوپر جائے کہ اسی اثنا میں پھر گنجی آنٹی کی صدا سنائی دی۔

میں نے فون اٹھایا اور نمبر ملایا۔ لیکن نمبر بند تھا۔ میں نے پھر کوشش کی لیکن بے سود۔۔

بیگم کچھ اور خوفزدہ وہ گئیں “ضرور ضرور کچھ ہے۔” اس نے بچوں پر پھونکوں کی مقدار بڑھا دی تھی۔

“ہوش کرو۔ ” میں نے صحن میں چلتے پھرتے کہا۔ پریشانی اب میرے چہرے پر بھی ہویدا تھی۔ کہا چکر ہو سکتا ہے۔ میں نے سوچنا شروع کیا۔

“کوئی آیا تھا آج آنٹی کے گھر۔؟” میں نے پوچھا
“نہی کوئی بھی نہی آیا۔” میرے حوصلہ دلانے پر بیگم نے پھونکوں کا ورد ختم کیا اور میرا بازو پکڑ کر میرے ساتھ ساتھ چہل قدم کرنے لگی۔

“پھر کیا مسلئہ ہو سکتا ہے؟” میں نے خودکلامی کی
“آپ چاہے یقین نہ کریں۔ میں نے خود دیکھا ہے ان کے کپڑے جہاں جہاں ہاتھ لگاتی ہیں بھرتے جاتے ہیں۔ “بیگم نے میری خود کلامی کے جواب میں کہا

“یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں پر کچھ لگا ہوا ہو۔؟” میں نے پوچھا

“نہی وہ دو دفعہ نہا چکی ہیں۔ اور پانی تو وہی ہے جو ہم استعمال کر رہے ہیں۔ ہاتھوں پر کچھ لگا ہوتا تو اور چیزوں پر بھی اس کا اثر ہوتا۔” میری بیگم کا دماغ چلنا شروع ہو گیا تھا۔ شوہر کی قربت اسی کا نام ہے ہر زمانے کی اور ہر کیلبر کی عورت جب محبوب کے ساتھ ہو تو اس کا دماغ بہت تیزی سے سوچنے لگتا ہے۔

ہمم۔۔۔آپ اندازہ لگائیں کہ موم بتی کی روشنی کتنا اندھیرے کو ختم کرتی ہے۔ ہم آسمان کے ستاروں کی ہلکی ہلکی روشنی میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک دروازہ بچا۔

“کون؟” میں نے پوچھا

“میں ہوں ۔”چنگی آنٹی کی آواز تھی۔ آواز سنتے ہی میری بیگم نے جست لگائی اور بستر پر ایسے لیٹ گئی جیسے سو رہی ہو۔

میں نے دروازہ کھولاتو چنگی آنٹی چادر میں لپٹی کھڑی تھی۔ “اندر آ جائیں” میں نے دروازے سے ہٹتے ہوئے کہا۔

“وہ فون کر دیا”۔ انہوں نے باہر سے ہی پوچھا۔ کہجہ ایسا تھا جیسے جیسے دنیا سے ان کا دل اٹھ گیا ہو اسیا لگتا تھا انہیں گنجی آنٹی نے یہ یقین راسخ کر دیا تھا کہ ان کا آخری وقت آ گیا۔

“کوشش کر رہا ہوں مل نہی رہا جیسے ہی ملتا ہے تو بات کرتا ہوں۔” میں نے جواب دیا
” ہوا کیا ہے آنٹی۔ ؟”میں نے غور سے ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔

“بس ساجد بیٹا کیا بتاؤں۔” ابھی وہ یہی ہی کہ پائی تھی کہ میں نے پوچھا

“آنٹی ایسا تو نہی کہ کپڑوں کے بکسے میں آپ نے فرنائل ٹائپ کی گولیاں رکھی ہوں اور اس وجہ سے کپڑے پھٹ رہے ہوں”ا
“نہی بیٹا۔ ایسی کوئی بات نہی ضرور مجھ پر کوئی چادو کر رہا ہے ؟۔۔۔مجھے یقین ہے” انہوں نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا

“لیکن کوئی کیوں کرے گا۔ آپ کے پاس نہ بہت دولت ہے نہ ۔۔”۔۔میں خاموش ہو گیا کیونکہ میں کہنے لگا تھا کہ اس عمر میں آپ پر جادو کر کے کسی کو کیا ملے گا۔

“بس بیٹا۔ میری بیٹی کی ساس کر رہی ہو گی۔ “میں جانتا تھا کہ ان کی بیٹی کی ساس ان کی بیٹی کی ممانی بھی تھی۔

تو آپ سارے کپڑے انہں گفٹ کر دیں میں نے بات کو مزاق میں ڈالتے ہوئے کہا۔ لیکن اچانک وہ دوبارہ واپس گھر کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ اور مجھے اور حیران کر گئی۔ “انہیں کیا ہوا” میں نے دل میں سوچا

“آنٹی واپس چلی گئیں۔؟” میں دروازہ بند کر کے لوٹا تو بیگم نے آہستہ سے پوچھا

“ہاں چلی گئیں لیکن جن ادھر ہی چھوڑ گئیں ہیں۔ “میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ لیکن دل میرا بھی کچھ کچھ پریشان ہو رہا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے فون ملایا ان کا داماد راستے میں ہی تھا اور ایک آدھ گھنٹے میں پینچنے والا تھا۔

رات کو تو گزرنا ہی تھا اور گزر گئی۔ اگلے دن صبح صبح گنجی آنٹی سرکاری پانی بھرنے ہمارے گھر آئیں تو سب سے پہلا سوال ہمارا چنگی آنٹی کے بارے میں تھا۔

پہلے تو وہ شرمندہ شرمندہ دکھائی دیں کیونکہ وہ کافی دیر باہر بیٹھ کر یا اللہ خیر کا ورد اور اللہ تعالی سے بہن کی معافی کی درخواست کرتی رہی تھیں۔

“بس بیٹا کچھ نہی۔ “انہوں نے شرمندہ شرمندہ کہنا شروع کیا۔ “وہ اصل میں چنگی آنٹی نے اپنی چادر سے یو پی ایس صآف کیا تھا ۔ یو پی ایس پر تیزابی بلبلے نکلے ہوئے تھے بیٹری سے۔ وہ چادر پر لگ گئے پھر جب بھی وہ کپڑے پہن کر وہ چارد لیتی وہ کپڑے بھرنا شروع کر دیتے۔ وہ تو رات کو بچے آئے تو انہوں نے تحقیق کی۔”

اور جب ہم نے اپنی بیگم کی طرف دیکھاتو وہ بھی کسی کام سے فورا دوسرے کمرے کی طرف رخت سفر باندھ چکی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *