Categories
افسانے

حسرت

آج بچے پھر پوچھ رہے تھے، بابا نتیجہ آ گیا- بیٹی نے کہا میں نے تھرڈ پوزیشن لی ہے، بیٹا بولا ٹیچر نے آج میرے لیے تالیاں بجوائی ہے . آپ ہمیں کیا تحفہ دیں گیں. آپ روزانہ کہتے تھے جو اچھے نمبروں سے پاس ہو گا اس کو اچھا سا تحفہ ملے گا. ایک یاس بھری آہ کے ساتھ میں نے جواب دیا بکلل بیٹا، تحفہ تو ضرور ملے گا. اچھے نمبروں سے پاس جو ہوۓ ہو. اور میں نے فون بند کر کے واپس دفتر کے کاموں میں مصروف ہو گیا. لکین دل تھا جو سوچ رہا تھا کے کیا کیا جاۓ. چھٹی ہوتے ہے میں ایک کھلونوں کی دکان میں چلا گیا. ایک کھلونے کی قیمت اتنی تھی جتنی میری جیب میں رقم نہ تھی . دکان سے نکلتے ہوۓ ایک خیال زہن میں آیا اور سوچا بچے تو معصوم ہوتے ہیں کچھ ایسا کیا جے کے بہل جائیں. جب میں نے گھر کی گھنٹی بجائی، تو ایسا لگا جیسے بچے انتظار میں ہوں، دروازہ کھلنے سے پہلے ہی بابا تحفہ لاۓ، بابا تحفہ لاۓ کی آوازوں نے میرے پائوں جکڑ لیے. گھر کے اندر جاتے ہے میں نے کشی سے صدا بلند کی. سب بچے آنکھیں بند کر لیں. آج میں سب سے پیارا تحفہ لایا ہوں. میرے باپ نے بھی یہی تحفہ مجھے دیا تھا اور آج میں بھی اپنے بچوں کو یہی دوں گا.میں نے تھیلے سے گلاب کے ہار علیدھا کیے اور بچوں کی گلے کی زینت بنا دیے.گھر کے باقی افراد نے زور زور سے تالیاں بجائیں. پھولوں کی خوشبو سے بچے خوش ہو گے. اور میں نے کہا، بچوں کھلونے لاتا تو آپ توڑ دیتے ہو. لکین یہ خوشبو صدا آپ کے ساتھ رہے گی، کتنا اچہ تحفہ ہے، بچوں نے سمجھا یاں نہیں سمجھ لکین وو خوش تھے. حتیٰ کے سونے سے پہلے بھی وہ ہار انہوں نے گلے سے نہیں اتارے اور سو گۓ .بچے تو خوش ہو کر سو گے لکین، رات گے تک میں اپنی حسرتوں کے پھول چنتا رہا . پؤ پھٹے تک جاگتا رہا. اور آنسو بہاتا رہا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *