Categories
بیتی

خدا

کیا خوبصورت بازار سجایا گیا تھا۔ ہر طرف قمقے ہی قمقمے روشن تھے۔ نور ہی نور بھیلا ہوا تھا ۔ کسی کو کچھ سجھائی نہی دے رہا تھا۔ وجود عدم، عدم وجود کا فرق مٹ گیا تھا۔ فرق تھا تو صرف یہ کہ ایک بیچنے والا تھا اور ایک خریدنے والا۔ ایک کائنات کا اللہ تھا اور ایک نصیریوں کا۔ سودا تو پھر شاندار ہی ہونا تھا۔ بیچنے والے کا مال انمول تھا۔۔ خریدنے والا مول تول کا عادی نہی تھا۔ خریدار کو ایک اور فکر بھی کھائے جا رہی تھی۔ کہ بیچنے والا اس کی جگہ لے چکا تھا۔ اللہ کے گھر میں وجود لم یزل ہی آ سکتا تھا۔ کچھ ایسا کروں کہ میں تو وہ ہوں جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ تو کیوں نہ اپنا سب کچھ دے کر خدائی کو بچا لوں۔ کائنات عالم میری رضا کے لئے سب کچھ کرتی ہے تو کیوں نہ اس کائنات کو باور کروا دوں کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی ہمسر نہی۔ کیسے؟ کیسے؟ کیسے؟۔ اور آج بازار سجا دیکھ کر بغیر چہرے والے کے وجہ پر مسکراہٹ آئی۔ اے بیچے والے کیا چاہتا ہے۔ بیچنے والا مسکرایا۔”اپنی خدائی بچانی ہے؟” خریدنے والے نو فورا اثبات کا اشارہ دیا۔ “لیکن میری ایک شرط ہے” کیا؟ بیچنے والے جانتے بوچھتے انجان بن گیا۔
خریدنے والے نے صرف ایک شرط رکھی باقی سب کچھ تمہارا صرف خدائی میری۔ بس تمہے ایک رات سونا ہو گا۔ بس ایک رات؟” چاہے دنیا والوں کو میں یہ کہ سکوں کہ دیکھو۔۔۔مجھے تو نہ اونکھ آتی ہے نہ نیند۔ جسے تم اللہ کہ رہے وہ تو ایسا سویا کہ کبھی نہ سویا تھا۔سودا مکمل ہوا۔ بیچنے والے نے اپنا نفس ہی بیچ دیا۔ تیری مرضی جیسے چاہے اسے استعمال کر۔ اور خریدنے والے نے بھی کمال کا کمال کر دیا۔ جا آج سے ساری رضائیں تیری۔

تو ہی تو چھپا ہوا خزانہ تھا لیں میں نے تجھے ظاہر کیا اور میر پہچان ہو گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *