Categories
افسانے

دو قومی نظریہ

ہم جالندھر میں رہتے تھے۔ محلے ہی میں انگلو پرائمری سکول تھا۔ مجھے اس میں داخل کروا دیا گیا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ وہاں ایک سکھ ٹیجر تھا۔ کافی موٹا قسم کا وہ کرسی ہر بس بیٹھا رہتا زیادہ تر تو وہ خراٹے لیتا رہتا یاں۔۔۔۔۔شائد اسے کسی قسم کی خارش کی بیماری تھی۔ میں خوشی خوشی سکول آیا تھا میرے ساتھ ایک اور لڑکا بیٹھا تھا۔ نام یاد نہی آ رہا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ لنچ لے کر آیا تھا۔ اس نے اپنا کھانا مجھے بھی کھانے کے لئے دیا۔ اس طرح کچھ دن گزر گئے۔ ہم اچھے دوست بن گئے۔ کبھی میں لنچ لے کر جاتا اور ہم اکٹھے کھاتے کبھی وہ لے کر آتا۔ کبھی کبھی ہم دونوں ہی لے آتے اس دن تو موج ہی ہو جاتی۔ ایک دن میرے اس دوست نے کہا کہ ماتا جی کہہ رہی تھی کہ اپنے دوست کو لانا۔ وہ تم سے مل کر بہت خوش ہونگی۔ مجھے کیا تھا میں اس کے ساتھ چل دیا۔ ماتا جی بڑے پیار سے ملی۔ مٹھائی بڑے پیار سے کھلاتی رہیں۔ فٹا فٹ لسی کا ایک گلاس دیا مجھے۔ میرے لئے تو عید کا سماں تھا۔ پھر انہوں نے پوچھنا شروع کیا۔ کہاں رہتے ہو۔ پتا جی کا کیا نام ہے۔ جیسے ہی میں نے نام بتایا کہ انہیں مولوی صادق کہتے ہیں۔ ماتا جی اہل لمحے کے لئے چپ سی ہو گئی۔ انہوں نے میرے دوست سے کہا جا اسے گلی کی نکڑ تک چھوڑ آ دیر نہ ہو جائے۔ اور میں گھر کی سمت چل پڑا۔ دوسرے دن سکول پہنچا تو ہم دونوں بیٹھے تو ساتھ ساتھ تھے لیکن لگتا تھا ہمارے درمیاں بہت فاصلے ہیں۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ماتا جی کہتی ہیں کہ مسلوں کو دوست نہی بناتے اور انہوں نے میرے جانے کے بعد گائے کا پیشاب منگوا کر وہ ساری جگہ دھلوائی جہاں جہاں میں گزرا یاں بیٹھا تھا۔

آج سوچتا ہوں کہ پاکستان تو شائد اسی وقت بن گیا تھا۔ جب میں بھی گھر آیا اور ساری بات اپنی ماں کو بتائی تو اس نے بھی یہی کہا۔ بیٹا کسی مسلمان کو دوست بنانا یہ لوگ کسی کو کچھ نہی سمجھتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *