کربل کی کہانی جب کوئی بھی سنائے گا
دل والوں کی آنکھوں سے اک دریا بہائے گا
وہ قافلہ سرور کا جو شان سے نکلا تھا
صغراٰ کو خبر کیا تھی نہ لوٹ کے آئے گا
زہراء زہراء پرسہ لو بہتر کا
ٹوٹی ہے کمر شہ کی ، گھبرا نہ مگر اکبر
فرزند نبی تیری میت کو اٹھائے گا
زہراء زہراء پرسہ لو بہتر کا
سوتے ہی نہ تھے اصغر ، جھولے میں تڑپتے تھے
مادر کو خبر کیا تھی ، اک تیر سلائے گا
زہراء زہراء پرسہ لو بہتر کا
پامال ہوا قاسم جب گھوڑوں کی ٹاپوں سے
کس طرح چچا تیری میت کو اٹھائے گا
زہراء زہراء پرسہ لو بہتر کا
تھا ہاتھوں کے کٹنے کا کچھ غم نہ دلاور کو
سیدانیوں کا پردہ اب کون بچائے گا
زہراء زہراء پرسہ لو بہتر کا
سرور نے اٹھائے تھے سب ساتھیوں کے لاشے
شبیر تیرا لاشہ اب کون اٹھائے گا
زہراء زہراء پرسہ لو بہتر کا