Categories
طنزومزاح

شادی

سنا کرتے تھے ایک نیام میں دو تلواریں نہی رہ سکتی۔ یہ بات واقعی سچ ہی لگتی تھی۔ ہے سے ابھی اتفاق نہی ہے اس کے لئے آپ کو یہ پورا خاکہ زبان من سے ازبر کرنا پڑے گا۔ خیالوں کی دنیا میں دو تلواروں کو ایک نیام میں ڈالنے کی کوشش بھی کی تو دونوں تلواریں اکٹھی نہی ہو سکیں۔ ایک تو ٹکرائی بہت دوسرا نیام کا جو حال ہوا سو ہوا۔

کبھی کسی نے سنا ہے کہ زمین کے دو سورج ہو سکتے ہیں۔ جناب ایک نہی سنبھالا جا رہا دو ہو گئے تو الامان الحفیظ۔! کبھی میدانی علاقوں میں ایک ہی سورج کی تباہ کاریاں تو دیکھیں۔ دن بھر ایسی لو چلتی ہے کھال پگھل جائے۔ آپ سب کو تو معلوم ہی ہے کہ ایک صوفی بزرگ کو بھوک لگی تو گوشت بھوننے کے لئے انہوں نے سورج کو اپنے پاس بلا لیا اور تب سے ہر سال سورج تجدید عہد وفا کے لئے اتنا نزدیک آتا ہے کہ جسم کا گوشت جلنے لگے بھلا ہم بھی کوئی صوفی ہیں۔ جوصرف بوٹی بھون سکیں اور اپنے جان ناتواں کو بچا سکیں۔ لیکن سورج کیسے سمجھے۔

زمانے کا یہی دستور رہا ہے چال چلن بھی کہ سکتے ہیں کہ جوان ہوتے ہی لڑکا اور لڑکی کو ایک دوسرے کے پلے باندھ دیا جائے لیکن ایک بیگم کا مل جانا بھی آج کے دور میں ملنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔۔ میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی رشتہ سمجھا جاتا ہے کہ اور عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت کہیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ لیتے ہیں۔ یقنناً آپ کی بھی یہی رائے ہوگی ، مگرایک حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریے کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دو اجنبی شخص ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں ، مگر میاں بیوی یا شریک زندگی کے طورپر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے جوڑے نہیں۔ میاں بیوی کارشتہ سب سے پکا رشتہ ہوتا ہے ٹہرئے بلکہ سب سے کچا ہوتا ہے۔ سب سے لطیف اور بسا اوقات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتاہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ لطیفوں کی دنیا میں سب سے زیادہ لطیفے میاں بیوی سے ہی منسوب ہیں ۔ اور یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ وہ ان کی نہیں سنتے اور اکثر شوہروں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بیگم ان کی بات پر دھیان نہیں دیتی۔ ان دنوں فاصلوں کے درمیان جو چیز اپنا وجود رکھتی ہے، اس کے بارے میں نفسیاتی ماہرین کا کہناہے کہ وہ ہے ایک دوسرے کے بارے میں نہ جاننا۔ تبھی تو جب ایک بیوی نے شوہر سے پوچھا کہ آپ کو میری خوبصورتی اچھی لگتی ہے یا عقل مندی تو میاں جی تھوڑا سا مسکرائے بلکل “ان” کی طرح اور برجستہ بولے۔ تمہارے مزاق کرنے کی عادت۔ اسی طرح ایک صاحب نے جی “انہوں” نے ہی دوسرے صاحب سے پوچھا کہ جناب خوشیاں کیا ہوتی ہیں دوسرے صاحب بولے بھائی ہمیں کیا معلوم ہماری تو کم عمر میں شادی ہو گئی تھی۔

تو ہم بات کر رہے تھے جب ایک تگنی کا ناچ نچا سکتی ہے تو دوسری کی خواہش کون کافر کر سکتا ہے۔ اور خوایش کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا بھی لے تو وہ کون سا ناچ نجائے گئی یہ سوچ کر ہی دل وحشی کو غوطے آنے لگتے ہیں اگر کسی کا ارادہ ہے بھی تو اس وقت سے ڈرئے جب دونوں مل کر ناچ کی بچائے ناکوں چنے چبوائیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کہ بات ہے کہ شوہر صاحب دوسری منکوحہ کے ساتھ مارکیٹ میں ٹامک ٹؤئیاں مار رہے تھے کہ پہلی والی اچانک وارد ہو گئیں پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اسے لوڈ شیڈنگ سے براہ مہربانی نہ جوڑا جائے۔ جب شوہر صاحب کی مزاج پرسی کے لئے ہم گئے تو انہوں نے برجستہ کہا۔”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے” اب نجانے یہ محبت تھی کہ جنگ جس میں نقصان اپنا ہی ہوتا ہے۔ اور اگر میں آپ سے کہوں کہ ایک شخص کی کئی بیویاں ہیں تو اوپر سے آپ مسکرائیں گے لیکن دل ہی دل میں بے چارے پر فاتح پڑھیں گے اور سوجیں گے کہ ساری کی ساری گنگی بہری ہونگیں تبھی تو ابھی تک ہیں۔ ہم نے تو جناب بڑے بڑے لوگ دیکھیں ہیں۔ نہی نہی عالم چنا جیسے بڑے نہی “بڑے بڑے” سے مراد “بڑے بڑے” ایک تو آپ ہر لفظ کو شاعروں کی طرح تولنے لگ جاتے ہیں دہی بڑے والے بڑے بھی نہی۔ بڑے بڑے۔ جیسے اب ان کو ہی دیکھئے
میاں بیوی سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ اچانک بیوی بولی

بیوی: سنو ! کیا تم میرے مرنے کے بعد دوسری شادی کر لو گے ؟؟
شوہر: نہیں‌بیگم۔ تمہیں پتہ ہے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ میں دوسری شادی نہیں کرونگا۔
بیوی: لیکن تم اتنی لمبی زندگی تنہا بھی تو نہیں‌گذار سکتے ۔ شادی تو تہمیں کرنا ہو گی
شوہر: دیکھا جائے گا ۔ اگر ضروری ہوا تو کر لوں گا!!
بیوی: (دکھ بھری آواز میں ) کیا تم واقعی دوسری شادی کر لو گے ؟
شوہر: بیگم ! ابھی تم خود ہی تو زور دے رہی تھی۔
بیوی: اچھا کیا تم اسے اسی گھر میں لاؤ گے ؟
شوہر: ہاں۔ میرا خیال ہے ہمارا گھر کافی بڑا ہے اور اسے یہیں رہنا ہو گا
بیوی: کیا تم اسے اسی کمرے میں رکھو گے
شوہر: ہاں کیونکہ یہی تو ہمارا بیڈ روم ہے
بیوی: کیا وہ اسی بیڈ پر سوئے گی
شوہر: بھئی بیگم ظاہر ہے اور کہاں سوئے گی
بیوی: اچھا کیا وہ میری جیولری استعمال کرے گی؟؟
شوہر: نہیں اس جیولری سے تمہاری سہانی یادیں وابستہ ہیں ۔ وہ یہ استمعال نہیں کرسکے گی
بیوی: اور میرے کپڑے ؟؟
شوہر: پیاری بیگم ! اگر مجھے شادی کرنا ہوئی تو وہ کپڑے بھی خود ہی لے کر آئے گی۔
بیوی: اور کیا وہ میری گاڑی بھی استعمال کرے گی ؟؟
شوہر: نہیں ۔ اسے گاڑی چلانا نہیں آتی۔ بہت دفعہ بولا لیکن وہ سیکھنا ہی نہیں چاہتی ۔

مگر مجال ہے کہ ہم آج تک جان سکیں ہو کہ میاں کوں ہیں اور بیویاں کون یا بیوی کون اور میاؤں کون چھوڑیں جناب آج کل تو سب چلتا ہے۔ ہمیں تو ان پر ناز ہے مجال ہے نو نو بیویوں کے ہوتے ہوئے انہوں نے ہمیں لفٹ نہ کروائی ہو۔ ہمیں ہی کیا اتنے بڑے دل کے مالک ہیں کہ سب کو اپنی بانہوں میں چھپا سکتے ہیں۔ لیکن جسے پیا چاہے وہ بننے میں تو ابھی زمانہ ہے۔ کیونکہ ان کی سب سے اچھی منکوحہ ہر فن مولا ہے نظروں کے ایسے ایسے تیر چلاتی ہے کہ کسی کی کیا مجال بچ کر نکل جائے ادب کی کون سی صنف نہی جو پر عبور نہ ہو۔ دوسری بیوی چاہتی تو بہت کچھ کرنا ہے لیکن کیا کرے بڑی آپا کی سوتن ہونے کی وجہ سے دبی دبی رہتی ہے۔ تبھی تو کبھی کسی کو ڈسلائک نہی کرتی حتی کہ خود کو بھی نہی۔ تیسیری کے تو مزاج ہی انوکھے ہیں۔ میاں کے ادھر ادھر ہونے کی وجہ سے اس نے اپنی دینا آپ بنا ڈالی ہے اور چوبیس گھنٹے مجال ہے سکون کا سانس لے۔ جب کچھ کرنے کو نہی ہوتا تو مادری زبان کے چٹخارے لینا معمول بنا لیا ہے۔ چوتھی کا کیا بتائیں۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ چہرے پر ایسی معصومیت کہ نطریں تعظیم کے لئے چھک جائیں اند خانے معلوم نہی کرتوت کیسے ہونگیں۔ ماشااللہ پانجویں اور چھٹی تو ٹون لگتی ہیں نجانے کیسے پتہ چلاتے ہونگیں کہ کون سی والی ہے شائد بلیک اینڈ وائٹ سے۔ ساتویں کو تو سنگھارسے ہی فرصت نہی ملتی، گنگی چوٹی سے جان چھوٹے تو کوئی کام کرے اور ہمیں بھی معلوم ہو کہ کیا گن آتے ہیں۔ باقی دو کچھ عرصے کے لئے دور دور ہیں بہانا تو یہ بنایا ہوا ہے کہ وقت نہی ہوتا لیکن وقت کب نہی ہوتا شائد کسی اور ڈائمنشن میں رہتی ہوں۔ ہم نے کہا تھا کہ ہم بتائیں گے ایک نیام میں بہت سی تلواریں کیسے رہ سکتی ہیں تو جناب اب آپ ہی فیصلہ کیجئے یہ نیام کی اچھائی ہے یا تلواروں کی۔

ہم نے بھی بہت عشق لڑائے مگر کیا کریں ہر جگہ سوکنوں کی فوج در موج نے ہمیں “ان” سے ایسے جدا کیا جیسے کوئی حسینہ دل چرا کر لے جائے اور آپ کو پتہ ہی نہ لگے۔ ابھی ہم ایجاب و قبول کے مرحلے سے کوسوں دور ہوتے تھے کہ پٹخ دئے جاتے تھے۔ ہمت ہم نے بھی نہی ہاری اور نہ ہارنے کا ارادہ ہے “وہ” زندہ صحبت باقی بس اسی سہارے پر ہے زندگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *