Categories
Featured افسانے

شہزادی

آج اس کی سہاگ رات تھی۔ وہ رات جس کا ارمان ہر جوان دل میں ہوتا ہے۔ ایک ایسی رات جب اپنا سب کچھ کھو کر بھی اپنا ہی رہتا ہے، دو دل، دو جسم اور دو روحیں ایک ہو جاتی ہیں۔ جسم کو بھی راحت ملتی ہے اور روح بھی ہواؤں میں اڑتی ہے۔ وہ سجی سنوری آنییہ کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے ائینہ میں اپنا چہرہ دیکھا، خوبصورت آنکھیں کیا غزال کی ہونگی، ستواں ناک، گلابی ہونٹ، اکڑی ہوئی گردن, گورا رنگ۔ اور سرخ جوڑا۔ سہاگ کا جوڑا۔ ارمانوں سے بھرا جوڑا۔  وہ اپنے سراپے کو کچھ دیر دیکھتی رہی۔ پھر اس نے شیلف میں پڑے قرآن پر نظر ڈالی۔ جزبات موتی بن کر اس کی آنکھوں کا طواف کرنے لگے۔  نظریں اس کی آئینہ پر تھی لیکن زہن ماضی کر گرد چھاڑنے لگا۔ وہی ماضی جس کے لیئے لوگ حافظہ چھین لینے کی دعا کرتے ہیں۔ وہ ماضی جو کبھی کبھی ناگ بن کر ساری زندگی ڈستا رہتا ہے۔ وہ ماضی جس کا ہونا آنے والے دن کو اور ازیت ناک کرتا رہتا ہے۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تو حیران ہوتی تھی۔ اتنا بڑا گھر۔ اتنا بڑا کہ اس پورے گھر کو 25 سال گزرنے کے بعد بھی وہ پوری طرح نہ دیکھ سکی۔ پچبن سے ہی اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ ہم وڈیرے ہیں اور تو وڈیرن۔ ایسے کرو، ویسے نہ کرو۔ ایسا نہی کرتے، اس طرح بیٹھو، اس طرح کھاؤ۔ جب گھر کی خواتین کو کہیں جانا ہوتا تو اعلان ہوتا تھا  لوگ راسے سے ہٹ جائیں۔ وڈیر زادیاں جا رہی ہیں۔   تعلیم واجبی سی گھر میں ہی حاصل کر لی۔ پھر پڑھنا آیا تو جو ملا پڑھ ڈالا، رات کے اندھیرے میں چوری چوری پڑھتے پڑھتے اتنا پڑھ گئی کہ دل میں آہیں اور دماغ میں سپنے سانپ بن کر ڈسنے لگے۔ ہر کہانی، عورت اور مرد کی محبت سے شروع ہو کر عورت اور مرد کی محبت پہ ختم ہونے لگی۔محبت کبھی دریا بن کر اس کو ڈبوتا رہا، کبھی سمند بن کر اس کی بانہوں میں سماتا رہا۔  جب چا ہے جانے کی خواہش نے دل و دماغ کو اپنے قبضہ میں لیا تو ایک ہی دھن تھی کوئی ہو۔ کوئی ہو جو میرے حسن کی تعریف کرے۔ کوئی ہو جو کہے کہ زلف پریشان کو اور پریشان نہ کرو۔ کوئی ہو جو کہے آنکھیں بند رکھا کرو، ورنہ ڈوب ڈوب جاتے ہیں۔ کوئی ہو جو کہیے مجھے تم سے محبت ہے۔ ہونہی 25 برس گزر گئے۔ نہ کوئی گھوڑے پر شہزادہ آیا نہ کوئی ڈاکو۔ بچبن سے گھر کے نوکر فضلو کو کام کرتے دیکھتی تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑا تو ہو گیا تھا لیکن کبھی اس نے آنکھ اٹھا کر نہی دیکھا تھا۔ اور آج جب گھر کے بزرگوں نے اس کی شادی قران سے کی تو وہ حیران پریشان ایک ایک کا منہ تکتی تھی۔ ماں اس سے آنکھیں نہی ملا رہی تھی اور باپ سے وہ خود نہی ملا سکتی تھی۔آخر وڈیرا تھا اور اس نے زندہ رہنے کا حق دیا تھا اسے مار دیتا تو کسی کو کیا فرق پڑنا تھا۔ اس نے بس ایک سوال ماں سے کیا تھا” ماں! تو بھی تو میرے جیسی ہے؟پھر بھی”۔ ماں نے منہ دوسری طرف کیا اور آہستہ سے بولی، میں وڈیرن کہاں تھی۔ اور کمرے سے نکل گئی۔  ایک ہی جملہ اس کے کانوں میں گونج رہا تھا کاش وہ وڈیرن نہ ہوتی۔ کسی غریب گھر کے چھوٹے سے آنگن میں وہ چھوٹے چھوٹے بچوں میں گھری ہوتی۔  نام کی شہزادی اور زندگی اس کیڑے جیسی جو مکڑی کے جال میں پھنس چکی ہو اور کوئی دیر اور ہو کہ مکڑی اسے کھا جائے۔ بابا نے یہ نہی سوچا کہ قرآن کے ساتھ میرے شادی تو کر دی اب میری سہاگ رات۔ اس سے آگے وہ نہی سوچ سکی۔ آخر قرآن کو بچپن سے عقیدت کے طور پر دیکھتی آئی تھی۔ کیسے سوچ لیتی لیکن خیالوں پر کیس کا اختیار ہے۔  آئینہ تو بتا مجھے کیا کرنا چاہئے۔ آئینہ تو بتا مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اورکچھ سوچ کر وہ پہلی بار کھل کے مسکرائی۔ اپنی مسکراہٹ دیکھ کر وہ خود بھی حیران رہ گئی۔بس ایک ہی بات اس کے دل میں گونج رہی تھی۔ کاش کوئی میرا بھی چاہنے والا ہوتا تو میں ایسے جان نہ دیتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *