Categories
افسانے

قصور کس کا

ّّّ
میرا نام عبداللہ ہے یعنی اللہ کا عبد نام رکھتے ہوئے میرے والدین نے سوچا بھی نہی ہو گا کہ میرا تعلق سافلین میں سے ہو جائے گا۔ اپنے رب سے سارے ناطئے توڑ کر شیطانیت کی گہری کھائی میں جا گروں گا اور یہ تو کوئی بھی نہی جانتا کہ وقت اور حالات کب بدل جائیں اور کب انسان صراط مستقیم کو چھوڑ دے اور کب سیدھی راہ پر آ جائے لیکن گزرے وقت کی کربناک پرچھائیاں ہمیشہ پیچھا کرتی رہتی ہیں اور جو گزرر گیا اسے بدلنا زندگی میں تو ناممکن ہے اور زندگی کے بعد سراب لگتا ہے۔
زندگی واقعی خوبصورت ہے جب انسان کو نہ کوئی فکر ہو نا پریشانی ورنہ خاردار ہو جاتی ہے گلزار سے۔ میری زندگی بھی حسین تھی۔ والدین کی آغوش میں گزرے پل نایاب اور یادگار ہی تو ہوتے ہیں۔ ابا کی الیکٹرک کی دکان تھی۔ کام اچھا اتھا۔ ابا کے ایک ہی بڑے بھائی تھے۔ گھر اپنا تھا دونوں اکٹھے رہتے تھے۔ گزر اوقات اچھی تھی۔ ہم دو بہن بھائی ہی تو تھے۔ میں کالچ میں پڑھتا تھا اور بہن آٹھویں جماعت میں۔ آسو کیا ہوتے ہیں؟ ٓٓہیں کسے کہتے ہیں؟ درد کیسا ہوتا ہے؟ تکلیف کیسے سہتے ہیں؟ مجھے معلوم نہی تھا کہ ایک دن ابا مال خریدنے بڑے بازار گئے اور پھر واپس نہ آئے۔ جیگتے جاگتے ابا کے بدلے دو لاکھ اور جسم کے کچھ چیھتڑے واپس آئے جو دفنا دئے گئے۔ بم دھماکے نے نجانے کتنے گھر اجاڑ دئیے تھے۔ نجانے کتنی سہاگنوں کو بیوگی کی چادر اوڑھا دی تھی۔ کتنی بہنوں کی آس آنسوؐں میں بدل دی گئی اور ہماری طرح کتنے بچے یتیم ہو گئے،
وقت کب رکتا ہے بلکہ انسان کا زور اگر کسی شے پر نہی تو یہ وقت ہی ہے ورنہ اپنے سے کمزور، ناتواں اور لاچار کو تو یہ انسان قدموں تلے روند دیتا ہے۔ باپ کی موجودگی میں دنیا پھولوں کا مسکن تھی سکون ہی سکون تھی مگر باپ کا سایہ سر سے اٹھتے ہی عزاب ہو گئی۔ سیاہ رات کے بادل فقط آنسو برسانے لگے۔ یکدم تایا اجنبی ہو گئے۔ چالیسواں ہوتے ہی اماں کو گھر بدر کا حکم مل گیا۔ میں نے بات کرنے کی کوشش کی تو گھر کے کاغذات کی کاپیاں میرے منہ پر مار دی گئیں۔ دونوں بڑے چچازاد نے اسے بدتمیزی گردانا اور میری درگت بنا ڈالی۔ اماں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور گھر چھوڑنے کا عندیہ دیا تو مجھے چھوڑا گیا۔ جو لوگ اتنی جلدی گھر کے کاغذات بدلوا سکتے تھے وہ مجھے مروا یا پکڑوا بھی سکتے تھے۔ بس یہی خوف تھا جو ماں نے مجھے اپنی قسم دے کر چپ کروا دیا اور ہم خاموشی سے اجڑ گئے۔
حالات اچھے تھے تو بہت سارے اپنے تھے حالات بگڑے تو اپنے بھی پرائے ہو گئے۔ ابا قرضدار نکل آئے۔ ان کی وفات پر ملنے والے دو لاکھ اور اماں کا زیور بیچ قرض اتارے اور میں نے دکان سنبھال لی۔ تجربہ نہ ہونے کی بنا پر پہلے دو سال تو کسمپرسی میں گزر گئے پھر آہستہ آہستہ گھر کا خرچہ، مکان کا کرایہ اور دوسرے اخراجات کا جن بوتل میں قید ہونے لگا۔ حالات ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ ماں نے شادی کی رٹ لگا دی۔ کچھ ماں کا اصرا ، کچھ جسمانی تقاضوں کا شور میں نے سادگی سے شادی کا عندیہ دے دیا۔ شادی تو ہو گئی مگر سہاگ رات کا سرور سادگی کے قرضوں کی نظر ہو گیا۔ زینت کا ساتھ خوشی کے ساتھ پریشانیوں سے بھی مزین تھا۔ یعض اوقات انسان کتنا مجبور ہو جاتا ہے سوچتا کچھ ہے، چاہتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ گھر میں ایک اور کے اضافے نے اخراجات بڑھا دئیے جس سے زندہ رہنے کی چنگ اور زوروں سے شروع ہوگئی۔ انہی حالات میں میں گھر میں پہلی بیٹی فرحت، پھر دوسری بیٹی راحت اور ایک بیٹے ثنااللہ کا اضافہ ہو چکا تھا معلوم ہی نہ ہو سکا کہ سات سال گزر گئے،
زندگی واپس اپنی ڈگر پر آنے لگی تھی۔ صبح اٹھتے ہی فرحت کے پیار، راحت کے نخروں اور ثنااللہ کی قلقاریوں نے زخم مندمل کرنا شروع کر دئے تھے۔ دن دکان پر نکل جاتا، شام ماں کی دعاوؐں بہن کی محبت اور بچوں سے خوشگوار ہو جاتا اور رات زینت کے پہلو نشین رہنا اچھا لگتا تھا۔ مگر خوشیاں کب کسی گھر میں مستقل قیام کرتی ہیں۔ ہمیشہ درد و غم ہی بن بلائے مہمان بنے رہتے ہیں۔ کوئی مہینہ پہلے کی بات ہے ایک وکیل کو الیکٹرک کا سامان مہیا گیا گفتگو کے دوران ابا کے مکان کا ذکر نکل آیا کہ ہمارا انصاف کا نظٓم کیسا ہے۔ وکیل نے حوصلہ دیا کہ یوں تو ایسے مقدمات ساری زندگی چلتے رہتے ہیں لیکن اگر کچھ رقم لگا دی جائے تو کام بن جاتا ہے اور یقینا اس گھر میں تمہارا حصہ بنتا ہے کوشش کرو کسی طرح پانچ لاکھ کا بندوبست کر لو۔ زہن میں امید جاگی کہ ہم اپنا گھر حاصل کر سکتے ہیں۔ میں نے کیس داخل کرنے کی اجازت دے دی۔ ادھر بہن کے رشتہ کے لئے ماں نے ہاں کر دی اس کی شادی کا بندوبست کرنا میرے لئے زیادہ اہم تھا۔ کم از کم دو چار لاکھ روپئے تو اس کے لئے بھی درکار ہونگیں۔ میں اسی ششو پنچ میں تھا کہ وکیل کو منع کر دوں کسی نہ کسی طرح پہلے بہن کی شادی کروں جس نے ہمیشہ مجھے باپ سمجھا۔ کچھ سمجھ نہی آ رہی تھی۔ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔باہر برسات ہوتی رہی اور میرے اندر آنسووں کی بارش۔ ادھر صبح کی اذان سنائی دی اور ادھر فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت کس کا فون ہو سکتا ہے؟ خدا خیر کرے؟
مارکیٹ کی یونین کے چئیرمین دولت خان کا فون تھا۔ “یارا عبداللہ! بری خبر ہے۔ بارش کے پانی سے سپارک ہوا اور کئی دکانیں جل گئیں ہیں جس میں تمہاری دکان بھی ہے”۔ یہ چند لفظ سنتے ہی جیسے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ماوؐف زہن سے لبوں تک ایک ہی صدا بلند ہوئی یا خدایا! دو ہفتے ایسے گزرے کہ ہر لمحہ اذیت ناک بن گیا۔ کس کس کے آگے ہاتھ نہی پھیلائے مگر لگتا تھا ہر شخص کی دکان جل گئی ہو۔ کس کس کے آگے نہی گرگڑایا مگر بے سود۔ کتنے طویل سجدے کئے مگر سب بیکار۔کبھی ماں کے سفید بالوں سے خون رستا دیکھا اور کبھی زینت کے چہرے پر بیوگی کا استعارہ۔ کبھی بہن کے ارمانوں کا جنازہ اٹھتے دیکھا تو کبھی بچوں کی معصومت کو غربت کے ناگ سے ڈستے ہوئے۔ سوچیں انگارے بن کر جسم کو ڈس رہی تھیں۔ ایک ایک لمحہ اذیت ناک بنتا جا رہا تھا۔ پڑھا لکھا تو تھا نہی چھوٹی موٹی نوکری ملنا بھی محال ہو گیا تھا۔ اگر ایسے ہی کوئی کام نہ ملا تو یقینا بات فاقوں تک پہنچ جائے گی۔ گھر کا ہر فرد حیران نگاہوں سے مجھے دیکھتا تھا۔ چھوٹی موٹی اشیا بکنے لگی تھی۔دل چاہتا تھا سب کچھ ختم ہو جائے زندگی تمام ہو جائے کہ ٹی وی دیکھتے ہوئے ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ بارش کی زیادتی سے ایک گھر کی دیوار گرنے سے ایک بچی وفات پا گئی تھی۔ مقتدر اعلی سیلاب سے گزر کر ان کے گھر گئے سارا کا سارا میڈیا ان کے ارد گرد تھا۔ ہر چینل ایک ہی خبر دے رہا تھا کہ حکومت نے دس لاکھ کا چیک اس غریب خاندان کو دیا۔
بح اٹھا تو میں سب کچھ سوچ چکا تھا۔ میرا اچھا برتاوؐ دیکھ کر سب خوش تھے۔ “آج فرحت کو سکول کے لئے تیار کر دینا بہت چھٹیاں ہو گئیں” میں نے آنکھیں چراتے ہوئے زینت سے کہا۔ “اور ہاں آج میں نوکری ڈونڈ کر ہی آؐوں گا” میں نے چہرے پر جھوٹی مسکان سجاتے ہوئے ماں کے ہوتھوں پر بوسہ دیا۔ فرحت بہت خوش تھی۔ اسے سکون جانا ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا۔ اس نے آ کر میرے گلے میں بانہیں ڈال کر میرے گالوں پر پیار کر کے بولی “بابا بہت اچھے ہیں۔ ہیں نا اماں” ماں کی طرف دیکھتے ہوئے معصومت مسکرائی۔ میں نے سائیکل نکالی۔ فرحت کا سکول بیگ ہینڈل پر لٹکایا اور گھر سے نکل گیا۔ اب مجھے چار پانچ گھنٹے کہیں گزارنے تھے۔ میں نے فرحت کے سر کو چوما اور جب اسے یہ بتایا کہ پہلے ہم چڑیا گھر جائے گے تو پہلے تو وہ بہت خوش ہوئی پھر اداس ہو گئی۔ “ٹیچر ناراض ہوتی ہے لیٹ جانے پر” اس نے بہت ارمان سے کہا۔ “کچھ نہی کہے گی ٹیچر۔ میں ہوں نا” یہ کہتے ہوئے سائیکل کا رخ میں نے چڑیا گھر کی طرف موڑ دیا۔ چڑیا گھر میں فرحت زیادہ خوش نہی تھی۔ “ میرے بچے کو پسند نہی آیا چڑیا گھر” میں نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا۔ “نہی بابا!” وہ چند لمحے رکی اور پھر بولی “ ہوم ورک نہی کیا نا۔ مجھے سکول کا اتنا کام کرنا ہے۔ ٹیچر ناراض ہو گی” اس نے بیگ کھولتے ہوئے کہا۔ فٹ پاتھ کے قریپ ایک دال بیچنے والا بیٹھا تھا اس نے سنا تو وہ مجھ سے بولا۔ بچی کو ادھر فوم پر بٹھا دو، اللہ اس کے علم کی دولت میں اضافہ کرے” اور اٹھ کر قریپ ہی بیٹھ گیا۔ میں نے ایسے میں اس کی تصویر بنا لی کیونکہ مجھے ایسی ہی کسی ٹصویر کی ضروت تھی۔
مجھے شام ہونے کا انتظار تھا۔ شام ہوتے ہی میں نے گھر کا رخ کیا۔ گھر کے باہر لوگ جمع تھے سب کچھ میرے منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا۔ محلے والوں کےدرمیان راستہ بناتے میں گھر میں داخل ہوا تو صحن میں چارپائی پر فرحت کی لاش پڑی تھی۔ زینت لاش سے اٹھ کر بھاگتی ہوئی مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے بین مجھے ڈگمگا رہے تھے : کدھر تھے فون بھی بند ہے آپ کا۔ ٓاپ کی لاڈو چلی گئی” اس نے دھاڑیں مارتے ہوئے کہا۔ “اوہ فون کی بیٹری ختم ہو گئی تھی”” میں نے رونے کی اداکاری کرنے لگا۔ “وہ صاحب لائے ہیں اس کیا لاش۔ سکول کی کاپی پر ایڈریس دیکھ کر “۔ “ہائے میری بچی کو اغوا کر کے کسی نے مار ڈالا” میں منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے چیخا۔ سامنے والے کا فون لے کر میں نے چینل والوں کو فون کر دیاجو مجھے دلاسہ دے رہا تھا۔ پولیس کے پہننچنے سے پہلے چینل والے موجود تھے۔ اپنے فون کو چارج کر کے میں نے فرحت کی تصویر بھی انہیں دے دی اور میں اعلی عیہددار کا انتظار کرنے لگا جو آ کر ایک بڑی رقم کا اعلان کرے گا۔ ہر چینل پر فرحت کی سکول کی کاپیوں پر کام کرتے ہوئے تصویر بار بار دکھائی جا رہی تھی۔ فرحت جو میری جان تھی میرا خون تھی ۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر ایک کے مر جانے سے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں تو سب کیوں مریں۔
آج جیل کی کوٹھری میں موت کی دعائیں مانگتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ قصور کس کا ہے، تقدیر کا، لالچ کا، میڈیا کا یا میرے ہونے کا،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *