Categories
افسانے

لاحاصل

میزبان نے چہرے سے اداسی کے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے مائیک کو اپنے قریب کیا اور دکھ بھرے لہجے میں گویا ہوا “سنا ہے آپ محبت ہار گئے؟” اور مایئک کا رخ سرفراز کی طرف کر دیا۔ میزبان کی پوری کوشش تھی کہ سننے والے نہ صرف متوجہ ہوں بلکہ ان کی ہمدردیاں بھی سمیٹ سکے۔ سرفراز کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے اس کی درد بھری آہ نے سب کو ان کی طرف متوجہ کر دیا۔۔ سکوت کے چند لمحوں نے جیسے محبت کے جنازے کو کندھا دیا اور آہ کے سوکھے ہوئے پھول چار سو بکھر گئے۔ “محبت!” سرفراز نے آنسوؐوں کے گھونٹ پیتے ہوئے میزبان کی طرف دیکھا۔” آج کل کے نوجوان کیا جانیں محبت کیا ہے۔ محبت ایک پاکیزہ چادر ہے جس پر دل نماز عشق ادا کرتا ہے۔ محبت وہ روشنی ہے جو ہوس کے اندھیروں کو نگل لیتی ہے۔ محبت وہ چشمہ ہے جس میں بھیگ کر “میں” میں نہی رہتی تم ہو جاتی ہے۔ انا کے سارے سنپولئیوں کو جزبہ عشق نگل لیتا ہے۔” سرفراز کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں ابھی وہ کچھ اور بھی بولنا چاہ رہیے تھے کہ میزبان نے یکدم مایئک اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا “آپ کیا سمجھتے ہیں آج کا نوجوان کیا سمجھتا ہے محبت کو؟” “ہوس صرف ہوس: سرفراز نے ایک لمحہ بھی سوچنے میں نہی لگایا۔ “آج کا نوجوان جوانی کے جسمانی تقاضوں کو محبت سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس کے لئے ان تقاضوں میں جتنی شدت ہو گی محبت اتنی زیادہ ہو گی” سرفراز کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔ اس سے پہلے کہ سرفراز کچھ اور بولتے میزبان نے مائیک ساتھ بیٹھے شخص کی طرف کیا اور پوچھا “ماشااللہ یہ تو کافی بہتر ہیں” اس سے پہلے کہ وہ شخص جواب دیتا سرفراز نے گھور کر نوجوان کو دیکھا “ کیوں مجھے کیا ہوا ہے؟ کون کہتا ہے میں بیمار ہوں؟” میزبان سٹپٹا گیا اس کی سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا کہ وہ بات سنبھال سکے اس نے یکدم سوال داغ دیا” ک ک کوئی ن نہی۔ کچھ اپنی محبت کا سنائیں تاکہ آج کے نوجوان محبت کے معنی سمجھ سکیں”۔ سرفراز نے مائیک میزبان کے ہاتھوں سے پکڑ لیا چند سیکنڈ کے لئے اپنی آنکھیں موند لی اور جب کھولی تو ان میں دو موتی جگمگا رہے تھے۔
ٍ
گاوؑں کی پرسکون فضا میں آنکھیں کھولی میں نے۔ ماں، باپ، ٓاپی، بڑے بھائی، چاچو اور چاچی جیسے رشتوں کی انمول چاہتوں سے زندگی کا آغٓاز ہوا۔ ماں بتایا کرتی تھی کہ میں ساڑھے تین سال کا تھا جب چچا کے ہاں ماہ پارہ کی آمد ہوئ۔ آنکھ کھلی تو گھر میں کافی گھما گہمی تھی۔ ماں بہت خوش تھی “تمہاری چچی کو بڑی پری رات کو چھوٹی پری دے گئی ہے۔ تم اس کے ساتھ کھیلنا مگر اسے تنگ مت کرنا”منہ ہاتھ دھلاتے ہوئے ماں نے ہدایات دینی شروع کی۔ “منہ تو خشک کر لو” ماں نے پکارا کیونکہ میں تو یکدم چچی کے کمرے کی طرف بھاگ چکا تھا۔ ماہ پارہ پر نظر پڑی وہ تو واقعی پری تھی اور ایک اور محبت کا اضافہ ہو گیا۔ دل محبت سے لبریز ہو گیا ۔ محبت ایسے ہی ہوتی ہے بغیر سیاق و سباق کے بس ہو جاتی ہے۔ مجھے ایک جیتا جاگتا کھلونا مل گیا تھا اس لیے اگلی صبح میں نے اپنی ہر پیاری شے جس میں سیلوں سے چلنے والی کار، چھڑوں والی بندوق، ٹوٹا ہوا بیٹ اٹھایا اور سب چچی کے کمرے میں لے جا کر ماہ پارہ کو دے دیا کیونکہ اب میرے دل میں کسی شے کی کوئی اہمیت نہی تھی کیونکہ ساری جگہ تو ماہ پارہ نے گھیر لی تھی۔ اور آج میں سوچتا ہوں کاش اگر ہم محبت کا دعوی کریں کسی سے تو دل کو فقط اس کی محبت سے بھر لیں چاہے وہ خدا سے ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے بھی ربیکا کی پوچا شروع کر دی تھی۔ “ربیکا” میزبان نے حیرت سے پوچھا۔ “ہاں ربیکا محبت کی دیوی” سرفراز نے اس عمر میں بھی سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ کہا۔ “ہر شخص کی زندگی میں کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ربیکا کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے کچھ پار لگ جاتے ہیں کچھ ڈوپ جاتے ہیں اور کچھ نہ ڈوبتے ہیں نہ پار اترتے ہیں میری طرح۔ سرفراز یکدم خاموش ہو گیا۔ کمرے میں سکوت طاری تھا۔ “پھر کیا ہوا؟” میزبان کی بجائے ایک اور شخص نے تجسس سے پوچھا۔
ٍ
جب میں پانچ سال کا ہوا تو مجھے سکول داخل کروا دیا گیا۔ شروع شروع میں مجھے بلکل اچھا نہی لگا۔ ماہ پارہ سے جدا ہونا ایسا ہی تھا جیسے میرا سانس کسی نے بند کر دیا ہو۔ سوائے سونے کے جو ماں مجھے نیند میں اٹھا کر لے جاتی تھی میرے شپ و روز چچی کے کمرے میں گزرتے تھے۔ ماہ پارہ اب چلنے لگی تھی کچھ لفظ بولنے لگی تھی ایسے میں دن کے چار پانچ گھنٹے ماہ پارہ سے جدا رہنا مشکل ترین وقت تھا۔ ماں کہتی تھی سکول جاوؐ گے تو ماہ پارہ سے کھیلو گے ورنہ ماہ پارہ کو فرید شہر لے جائے گا۔ فرید ماہ پارہ کی خالہ کا بیٹا تھا میرا ہم عمر تھاا اور مجھے اچھا نہی لگتا تھا کیونکہ وہ جب بھی آتا تھا ماہ پارہ کے ساتھ اس کا کھیلنا مجھے ایک آنکھ نہی بھاتا تھا۔ یوں مجھے سکول اچھا لگنے لگا۔ دینو،پھجا اور پھیرو میرے دوست بن گئے وہ دل جہاں صرف ماہ پارہ تھی وہاں دین محمد، فیض الدین اور شکور کی محبت گھسنے لگی، ہم خوب پڑھتے، خوب کھیلتے اور خوب لڑتے ماہ پارہ سے کھیلنے کے شوق میں مجھے سب کے ساتھ کھیلنا پڑتا۔ آج تینوں اس دنیا میں نہی ہیں یہ کہ کر سرفراز نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ تمام افراد کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ تمام لوگوں کے دل میں ایک ہی بات تھی کہ سرفراز چپ نہ ہو بولتا رہے اور سب سنتے رہیں۔ میزبان نے پہلو بدلا، مائیک لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ سرفراز کی گرجدار آواز گونچی “ نہی آج مجھے سب کہنے دو آج مجھے کوئی مت روکے۔” سرخ آنکھوں میں تیرتی آنسووؐں کی کشتیوں نے میزبان کو ساکن کر دیا۔ اس نے ایک لمبا سانس کھینچا، کھنگھار کر گلا صاف کیا اور صرف اتنا ہی کہ سکا “پھر کیا ہوا؟”
ٍ
وقت کو جیسے پر لگ گئے سچ کہتے ہیں وصل کے لمحے اونچی اڑان بھرتے ہیں جبکہ ہجر کے پل رینگتے ہیں۔ وصال ہی وصال تھا۔ سکول علیہدہ تھے مگر ہم اکٹھے آتے جاتے، اکٹھے پڑھتے اکٹھے رہتے جیسے ہوا بغیر سانس لینا مشکل ویسے ماہ پارہ کے بغیر زندگی مشکل لگتی۔ ہم دور دور تک پکڈنڈیوں پر چلتے جاتے رات کو ہم اکٹھے ستارے گنتے کھیتوں میں اگر کبھی بابا کام کے لئے لے جاتے تو ماہ پارہ ضد کر کے ساتھ ہو لیتی درخت کی چھاوؐں میں پڑی چارپائی پر بیٹھی مجھے تکتی رہیتی ہمارے والدین کیا سارے گاوؐں کو معلوم تھا ماہ پارہ سرفراز کی ہے مگر عجیب بات تھی ہم دونوں جسمانی تبدیلیوں سے گزر رہے تھے ہمارے دل ایک دوسرے کی محبت میں شرسار تھے مگر کبھی ایک دوسرے کے جسمانی لمس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی محبت تو عبادت ہے اور عبادت میں جسم نہی روح سرشار ہوتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اللہ سے محبت کے لئے جسم کتنا ضروری ہوتا؟ ہر سال جب گاوؐں میں میلہ لگتا تو اس کے لیے سبز رنگ کی چیزیں خریدتا کبھی سبز چوڑیاں، کبھی سبز پراندے اور کبھی سبز ڈوپٹہ۔ اس پر سبز رنگ خوب جچتا تھا۔ اور اس کی پسند ہی تو میری پسند تھی۔ میرے دل میں جہاں صرف ماہ پارہ ہی ماہ پارہ تھی وہاں ماں، باپ، بہن ، بھائی ، موسم، سب جگہ بنا رہے تھے مگر اب بھی باقی محبتیوں پر ماہ پارہ ھاوی تھی اور پھر وہ ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے دادا جی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ابھی چالیسواں بھی نہی ہوا تھا کہ بٹوارے ہو گئے گھر میں دیواریں کھینچ دی گئیں زمیں کے ٹکڑے کر دئے گئے اور ہجر کے موسموں نے ہماری منڈیڑوں پر ڈیرے جما لئے۔ ایک دوسرے کی ایک جھلک دیکھنا مشکل ہونے لگا آنسو ماہ پارہ کی آنکھوں سے نکلتے اور بہتے میری آنکھوں سے تھے۔ آہ وہ بھرتی تھی کلیجہ میرا جلتا تھا۔ سانس اس کی رکتی تھی دم میرا نکلنے لگتا تھا منتیں مانگ مانگ کر ہاتھ چھلنی ہونے لگے تھے مرادوں کی چوکھٹ عبور کرنا ناممکن لگ رہا تھا وہ لمحہ قیامت سے کم نہ تھا جب یہ اطلاع پہنچی کہ ماہ پارہ فرید جیسے امیر گھر میںبیہائی جائے گی۔ وہ محبت جس میں لمس کو گزر نہ تھا اب ہوس کا شکار ہونے لگی تھی۔ نہی ماہ پارہ کا جسم بھی میرا نہی تو کسی کا نہی۔ ثواپ کی دیواروں پر گناہ کی دراڑیں پڑنے لگی تھیں اس سے پہلے کہ کہ شیطان دل پر غلبہ پا لیتا اور محبت اغوا ہو جاتی ماں نے دودھ کی قسمیں دی اور باپ نئے سر کی پگڑی قدموں میں ڈال کر مجھے شہر بھجوا دیا اس وعدے کے ساتھ کہ میں تعلیم حاصل کر کے بڑا آدمی بن جاوؐں ماہ پارہ میری ہے میری ہی رہے گی۔ کاش میں شہر نہ آیا ہوتا۔
ٍ
ابا کے دوست کے گھر رہتے ہوئے مجھے تیسرا مہینہ تھا۔ میری ساری توجہ پڑھائی کی طرف تھی مجھے شہر یا کالچ کی آذادانہ زندگی سے کیا سروکار ابھی تک میرے دل کے زیادہ تر حصے پر ماہ پارہ قابض تھی۔ مگر ایک دن آپی کی کال نے زندگی اندھیر کر دی۔ چچا کی فیملی فرید کے شہر شفٹ ہو گئی تھی اور ماہ پارہ سادگی کے ساتھ فرید کی ہو گئیی تھی۔ کچھ دن تو دنیا اندھیر ہو گئی میں گاوؐں واپس آ گیا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا باپ کی شرمندہ آنکھیں اور ماں کی بے وجہ مصروفیت سمجھ آ رہی تھی۔ ایک ایک جگہ اس کی یادیں بکھری ہوئ تھیں۔ موت واحد حل نظر آ رہا تھا سارا سارا دن میں کھیتوں، پگڈنڈیوں اور گلیوں میں آوارہ پھرتا کہ ایک دن ایک مزار کے احاطے میں بزرگ نے مجھے روک لیا۔ “محبت مرنا سکھاتی ہے یا جینا؟” انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ “اگر جسم سے محبت کرتےتھے تو مر جاوؐ اور اگر روح سے تو جیو جب تک اللہ چاہے” بس اس دن کے بعد میں نے سب کچھ دل سے نکال دیا سوائے پیسے کی محبت کے۔ دولت نے میری دنیا اجاڑی تھی سو میں دولت میں بہ جانا چاہتا تھا۔ سرفراز خاموش ہو گیا مایئک میزبان کو پکڑایا اور سر جھکا لیا۔ تمام سننے والے مبہوت تھے۔ محبت کا یہ انجام کیا ہمیشہ آنسو ہی رہیں گے۔
ٍ
“آپ یہاں کیسے آئے؟ “ میزبان نے بھیگی آنکھوں سے پوچھا۔ “سرفراز نے سر اٹھایا اس کی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں۔ “پھر میں شہر کا ہی ہو گیا۔ دولت کے حصول میں سب کچھ کیا حتی کہ امیر گھرانے میں شادی بھی کر لی تین بیٹے ہوئے۔ زندگی نوٹوں کے گرد کولہو کابیل بن گئی۔ بچے اسی دولت کو استعمال کرتے ہوئے باہر کے ملکوں میں سیٹ ہو گئے۔ بیوی کچھ عرصہ پہلے فوت ہو گئی سب سے چھوٹا بیٹا مجھے ادھر چھوڑ کرخود دبئی شفٹ ہو گیا وہ سمجھے ہیں میرا زہنی توازن خراب ہے۔” سرفراز کا لہجہ بھیگ چکا تھا۔ میزبان نے اپنا رخ کیمرے کی طرف کیا اور لہجے میں درد لاتے ہوئے گویا ہوا “ عید کی خوشیوں میں اپنوں کو مت بھولئے۔ ہم بھی گزار رہے ہیں آج کا دن جن کے اپنے انہیں بھول چکے ہیں۔ یہاں لیتے ہیں ایک بریک۔ ملتے ہیں بریک کے بعد۔” کیمرہ نے فوکس کیا سرفراز کی آنکھوں سے دو آنسو گالوں سے پھسلتے ہوئے کہیں کھو گئے لیکن سرفراز یہ نہی جانتا تھا کہ اب بھی اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو کہیں کھوئے نہی سبز ڈوپٹے میں جذب ہو گئے۔ ماہ پارہ نے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *