Categories
افسانے

میرا بچہ

“میرا بچہ”

حیدر بہت خوش تھا۔ فییکٹری میں کام کرتے ہوئے وہ پھولے نہی سما رہا تھا۔ جلد از جلد اپنا کام نمٹا رہا تھا۔ کام کیا نمٹانا وہ اپنے دوست عمر کو کہ رہا تھا۔ یار زرا سنبھال لینا۔ مجھے گھر جلدی جانا ہے۔ عمر جانتا تھا جب سے گھر سے فون آیا ہے حیدرکے پاؤں زمین پر نہی ٹک رہے۔ دس سال ہو گئے تھے حیدرکی شادی کو اور آج وہ مبارک گھڑی آ پہنچی تھی جب اس کے سونے آنگن میں بھی کلکاریاں گونجنے لگیں۔ کیا آرزو ہوتی ہے جوان ہوتے ہی۔ پہلے انجانے میں نوجوان اپنے آنگن چوڑیوں کی کھنک سےسجا ہوا دیکھتا ہے اور جب دکھ سکھ کا ساتھی مل جائے تو خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد غوں غوں کی آوازوں سے سارا گھر روشن ہو جائے۔ نعمت ہو یا رحمت ماں باپ کے لئے تو جان کا ٹکڑا ہوتے ہیں۔

یہ سوچتے ہوئے عمر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ہاں! ہاں۔۔یار تو چل میں سنبھال لوں گا۔ حیدر نے جب عمر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس نے اسے گلے لگا لیا۔ نہ بھیا۔ روتے نہیں۔ اس نے عمر کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ زندگی اللہ کی دین ہے امانت ہے جب چاہے واپس لے لے۔ اسی میں بہتری ہو گی۔ ناں یار۔۔بس کر دے۔ اب تو چالیسواں بھی ہو چکا نوید کا۔ نوید عمر کا نوجوان بیٹا تھا یہی کوئی 15 سال عمر ہو گی۔ میٹرک کا طالب علم۔ پڑھائی میں تیز۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا۔ بڑھاپے کے خوابوں کی تعبیر۔ لیکن شہر کے حالات اسے کھا گئے۔ ان دیکھی گولی اسے چاٹ گئی۔ ہنتے بستے گھر پر قیامت ٹوٹ گئی۔ عمر ہمیشہ شکوہ کرتا تھا کہ جب لے ہی لینا تھا تو دیا کس لئے تھا۔ بے جرم قتل۔ اب تو اس شہر کو عادت ہو تی جا رہی ہے ہر روز جنازہ کی نمازیں پرھنے کی جیسے یہ نماز بھی فرض نمازوں میں شامل ہو گئیں ہوں۔ کون سی مسجد ہے جہاں روزآنہ بے جرم و بے گناہ بندوں کی نماز جنازہ نہی پڑھی جا رہی۔ حیدرکے حوصلہ دینے سے عمر نے اپنی آنکھیں صاف کی۔ اور لجاجت سے بولا۔ بیٹے کو میری طرف سے بھی پیار کرنا۔ کیا کروں یار۔ نوید بھولتا ہی نہی۔ کیسے بھول سکتا ہوں۔ جب تک اس کے قاتل نہی پکڑے جائیں گے۔ کس نے مارہ، کیوں مارہ، کسے ہوا سب؟ یہ سب سوال۔ سب جانتے ہیں کیا ہو رہا ہے لیکن زندگی کا خوف قاتل کا نام لینے سے گریزاں ہے۔ گریزاں ہی رہے گا۔ بوڑھے باپ جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ بیٹیاں عزتیوں لٹواتی رہیں گی۔ ان دیکھے ہاتھ کو اب دیکھنا ہو گا۔ نام لینا ہو گا ورنہ یہ ہوتا رہے گا۔ آج میرے گھر میں جنازہ ہے کل تمہارے گھر میں ہو گا اور پھر گھر گھر میں ہو گا۔ یار وعدہ کر۔۔ عمر نے یاسیت سے کہا۔۔اپنے بچے کو کسی دوسرے شہر لے جائے گا۔ میرا پیارا شہر تو اب قبرستان میں بدلتا جا رہا ہے۔ اور قبرستان بھی کوئی رہنے کی جگہ ہے۔ ہاں! ہاں ضرور حیدرنے بڑے پیار سے کہا۔ جیسے ہی کوئی بندوبست ہوا۔ چھوڑ دوں گا۔

حیدرمتوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے باپ نے اچھے وقتوں میں دو کمروں کا چھوٹا سا ایک فیلٹ خرید لیا تھا وہی اس کی جمع پونچی تھی۔ بوڑھی ماں اور بیوی کے ساتھ گزر بوسر ہو رہی تھی۔ شادی کے دس سال کے بعد ہو باپ بنا تھا۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے وہ سوچ بھی نہی سکتا تھا کہ آج آنے والا ا جائے گا۔ ابھی دی گئی تاریخ میں پندرہ بیس دن باقی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے اپنی بیگم کے پیٹ پر یاتھ رکھ کر اپنے بیٹے کو پیار کیا۔ اور ہمیشہ کی طرح باپ کا ہاتھ محسوس کرتے ہی بیٹے نے گھمن گھیڑیاں شروع کر دیَ۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیئے ایسی خوشی کہ وہ اپنی رگ رگ میں مسرت کا دریا بہتا محسوس کرتا رہا۔ جب بھی اسے بیٹے پر پیار آتا وہ یہی کرتا اور اس کے جواب میں بیٹے کی گمن گھیریوں سے محظوظ ہوتا۔

فیکٹری سے نکلتے ہوئے وہ بہت مسرور تھا۔ بڑے بڑے منصوبے بنا رہا تھا۔ اپنے خواب اپنے بیٹے کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور امید کر رہا تھا اس کی تعبیر ضرور ممکن ہو گی۔ اپنے آپ سے وعدہ کر رہا تھا کہ وہ بچے کی تمام خواہیشیں پوری کرنے کی کوشش کرے گا کہ اچانک بس کو جھٹکا لگا۔ اوہ ٹریفک جام۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ مختلف آوازیں اور ہارن شروع ہو گئے۔ آگے فائرنگ ہو رہی ہے۔ کنڈیکٹر نے بڑے آرام سے کہا جیسے معمول کی بات ہو۔ معمول ہی کی تو تھی۔ جب چاہےکسی کو بھی مار دیا جاتا تھا۔ یا اللہ رحم کر ہمارے شہر پر۔ حیدرنے دل سے دعا مانگی۔ کتنی آسانی سے انسان انسان کا قتل کر دیتا ہے۔ ساتھ رہتے ہیں ساتھ جیتے ہیں پھر بھی۔ رحم میرے مالک رحم۔

بس سے اتر کر گھر کی جانپ جا ہی رہا تھا کہ مغرب کی آذان ہونے لگی۔ آذان کی آواز سنتے ہی حیدرکو خیال آیا کہ کیوں نہ پہلے نماز پڑھ لے اور شکرانے کے نفل بھی۔ منتوں کی نمازیں تو بعد میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ بیس قدم کی دوری پر اپنے فلیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے بچے کو خیالوں میں بوسے دیتے ہوئے حیدرمسجد میں داخل ہو گیا۔ نماز پڑھ کر دعا کرتے ہوئے اس نے بہت سی دعائیں کی۔ عمر کے لئے بھی کہ اللہ اسے صبر دے اور اپنے لئے بھی کہ اب اسے اپنے بچے کے لئے زندگی چاہئے کوئی ایسا بندوبست ہو جائے کہ وہ شہر سے چلا جائے یا شہر کی قتل و غارت ختم ہو جائے۔ نماز اور شکرانے کے نفل پڑھنے کے بعد جب حیدر مسجد سے باہر نکل رہا تھا تو ایک زور دارد دھماکا اس کا منتظر تھا۔ آخری منظر جو حیدرکی آنکھوں میں جذب ہو گیا وہ انسانی اعضا کافضا میں اچھلنا تھا جس میں اس کے اپنے بھی شامل تھے کوئی ہوتا تو سنتا کہ آخری الفاظ حیدرکے “میرا بچہ” تھے۔

افراتفری کا بازار جب ختم ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ سامنے والے فلیٹوں میں آگ لگ چکی تھی اور ایک اجڑی ہوئی ماں، حیدر کی بیوی، جسے نہ اپنی نسوانیت کا ہوش تھا نہ اپنی حالت کا ایک بچے کھچے بچے کو اٹھائے جس کی ایک ٹانگ غائب تھی چہرہ چھلس چکا تھا اور وہ کبھی بھاگتے ہوئے آگے جا رہی تھی۔ کبھی بھاگتے ہوئے پیچھے۔ کبھی بیٹھ جاتی کبھی کھڑی ہو جاتی۔ لوگوں کے لئے تماشا بنی ہوئی۔ کیمروں کے لئے انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ لیکن کاش کوئی اس کے بھی قریب جاتا تو سنتا کہ وہ ایک ہی جملہ بڑبڑا رہی تھی “میرا بچہ”۔

One reply on “میرا بچہ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *