Categories
افسانے

میری گڑیا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بابا جی آپ نے وعدہ کیا تھا آج مجھے گڑیا ضرور لا کر دینی ہے۔ وہ بڑی سی۔ آپ گندے ہو۔ آپ مجھے گڑیا لا کر نہی دیتے۔ آپ اللہ قسم کھاؤ آج ضرور لاؤ گے۔ عبدل الباری ناشتہ کرتے ہوئے بیٹی کی یہ گفتگو سن کر دل ہی دل میں سوچنے لگا۔ زندگی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ یا خدایا ! ایک آہ سے دل سے نکلی کہ وہ اپنی بچی کی ایک چھوٹی سی خوایش پوری نہی کر سکتا۔ آج تو ضرور لا دوں گا اپنی نیناں کو۔ نیناں جو کبھی دائیں طرف آ کر ناراض چہرے سے باپ کو دیکھتی، کبھیی بائیں طرف آ کر منہ چوم کر کہتی۔ دیکھا بابا۔ میں نے میٹھا اپا کر دیا۔ کھاؤ نا اللہ قسم۔ عبدل الباری نے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو روکتے ہوئے اسے اٹھایا اور گود میں بٹھا کر پیار کرنے لگا۔ بلکل آج بابا ضرور لائیں گے۔ وعدہ۔؟ نیناں نے رسان سے پوچھا۔ اللہ قسم وعدہ عبدل الباری نے بیٹی کا منہ چومتے ہوئے کہا۔

آج کا دن بھی عبدل الباری کے لئے روزآنہ جیسا ہی تھا۔ اس بیل کی طرح جو کولہو چلانے کے لئے دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ اس کا گھومنا اور عبدل الباری کا دن گزارنا ایک جیسا ہی تو تھا۔ بوڑھی ماں، معزور بھائی۔ کرایہ کا گھر اور پھر فیکٹری کے دن رات۔ جب رات گئے وہ گھر آتا تو اسے ایسا لگتا کہ شائد اس کی زندگی میں اتنی فرصت بھی نہی جتنی کولہو کے بیل کو مل جاتی ہے۔ شائد وہ تو کبھی کبھی آرام کر لیتا ہو گا لیکن عبدل الباری۔

فیکٹری کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہی تھی۔ تبدیلی تھی تو بس اتنی آج اسے کچھ وقت فالتو مل گیا تھا۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لائٹ نہی تھی اور جنریٹر خراب تھا اور اسے ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگنا تھا۔ اس نے اپنے ایک دوست کو ساتھ لیا اور فیکٹری ایریا کی مارکیٹ میں چلا گیا۔ ویاں جب اس نے سجی سجائی گڑیا دیکھنی شروع کی تو کئی خواب اس کی آنکھوں میں سج گئے۔ یہ گڑیا لے یا وہ۔ نہی نیناں کو یہ پسند آئے گی اس نے ایک گڑیا ہاتھوں میں اٹھاتے ہوئے سوچا۔ کیونکہ نیناں کو ڈانس کرتی گڑیا اچھی لگتی ہیں۔ وہ مسکرایا کہ غریبوں کی بچیاں بھی تو ان ڈانس کرتی گڑیا کی طرح ہی ہوتی ہیں۔ چابی بھری اور جب تک چابی چلے گی گڑیا ڈانس کرے گی۔ چابی بھرتے رہو اور گڑیا چلاتے رہو۔ کیا سوچنے لگے اس کے دوست نے پوچھا۔ کچھ نہی بس ایسے ہی۔ عبدل الباری نے جواب دیا۔

تین سو کی گڑیا خرید کر ایک لمحہ عبدالباری نے سوچ کہ اس نے کوئی غلطی تو نہی کر لی۔ اتنی رقم میں تین سے زیادہ دن ان کے گھر میں شوربہ پک سکتا تھا۔ یہ ان کا پسندیدہ سالن بن چکا تھا کیونکہ جتنا پانی چاہے ڈال دو اور سب کو مل جائے۔ لیکن جب نیناں کی خوبصورت باتیں اسے یاد آئی تو اس نے دل کو تسلی دی۔ نہی اس کے سامنے تو یہ کچھ بھی نہی۔ اور کون سا نیناں روز روز ضد کرتی ہے۔ وہ تو جب سے اس نے ہمسائیوں کے گھر ٹی وی پر ایک بچی کے پاس دیکھی تھی تب سے وہ ایک گڑیا چاہتی تھی۔ اور اس بات کو بھی دو مہینے ہو چکے تھے۔ پہلے تو عبد الباری ٹالتا رہا۔ پھر روز وعدے کرتا رہا لیکن آج جس طرح سے نیناں نے کہا تھا اس کے دل کو چین نہی آ رہا تھا۔ آخر گڑیا لے کر ایک عجیب سی طمانیت اس کے رگ و پے میں اتر گئی ایسی طمانیت جیسے اس نے اپنی زندگی کا آخری اور بہترین کام کر لیا ہو۔

فیکٹری واپس آیا تو جنریٹر ٹھیک ہو چکا تھا۔ تمام لوگ کام شروع کر چکے تھےعبدل الباری بھی کام میں جت گیا۔ کیونکہ کچھ بھی ہو کام تو پورا کرنا پڑتا تھا چاہے لیٹ کام کرنا پڑے۔ کہ اچانک ایک افرا تفری سی پھیل گئی۔ سب ایک دوسرے کو پوچھنے لگے کہ کہا ہوا۔ کچھ لوگ ابھی بھی آرام سے کام کر رہے تھے انہیں معلوم تھا یہ تو تقریبا روز کا معمول ہوتا جا رہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کبھی جنریٹر کی وجہ سے آگ لگ جاتی تھی اور پھر بچھا بھی دی جاتی تھی۔ لیکن شائد آج یہ نہی بچھ سکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابھی جہاں سب کام کرنے والے کام کے ساتھ ساتھ ہنسی مزاق کر رہے تھے۔ ویاں موت کا سناٹا چھانے لگا۔ دروازے لوکڈ ہو چکے تھے دھواں بڑھتا جا رہا تھا۔ گوشت چلنے کہ بو دھوئیں مین اس طرح شامل تھی جیسے وقت کے آتش میں درد کے الاؤ پکتے ہیں۔ عبدل الباری نے جب دیکھا کہ دھواں ان کے فلور پر بڑھتا جا رہا ہے تو اس نے سب سے پہلے گڑیا اٹھائی اسے کپڑے میں لپیٹا اور دروازے کی طرف بھاگا۔ لیکن لوگوں کی افرا تفری اور دھوئیں کی وجہ سے لوگ مشکل ہو رہی تھی دروازہ ایک تھا اور مزدور سو سے زیادہ اور آگ کو لگتا تھا جیسے چند سیکنڈ میں پورے فلور کو نگل لے گی۔ چیخ و پکار کے بیچ میں عبدل الباری کو اتنا یاد رہا کہ اس نے گڑیا سینے سے ایسے لگا لی تھی جیسے نیناں کو پیار کرتے ہوئے لگاتا تھا۔ زندگی کی آخری سانوسوں میں اسے ایسے ہی لگا جیسے اس کی بیٹی جیتے جی مر گئی۔
نیناں گھبرائے ہوئے پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔ آج کوئی بھی اس کی بات سننے کو تیار نہی تھا۔ ماں دھاریں مار مار کر رو رہی تھی۔ دادی چارپائی پر بیٹھے بیٹھے کبھی بیہوش ہو جاتی کبھی ہوش میں آ جاتی۔ چاچوں کے آنسو رکتے ہی نہی تھے۔ یہ صرف ان کے گھر میں نہی تھا بلکہ محلے کے کافی گھروں میں اسی طرح کی چیخ و پکار تھی۔ لیکن نیناں کو معلوم تھا یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یقینا اس کی آرزو کے آگے کچھ نہی۔ میری گڑیا ضرور آئے گی آج بابا جی نے اللہ قسم وعدہ کیا تھا۔ بابا جی کہتے ہیں اللہ قسم وعدہ نہی توڑتے۔ نہی۔۔۔۔نہی آج ضرور آئے گی۔ جیسے دل کے کسی کونے میں یہ دھڑکا بھی تھا کہ جب گھر میں ایسی افراتفری ہو تو کھانے کو کچھ نہی ملتا۔ گڑیا کیسے ملے گی۔ کہ اس نے ماں کی صدا سنی۔۔ ہائے نیناں کے ابا۔ ہمیں کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو۔ نیناں بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور دوڑتی ہوئی دروازے کی طرف گئی جہاں کچھ لوگ ایک چادر میں لپٹی لاش کو اندر لا رہے تھے۔ لیکن بچی کو دیکھ کر رک گئے۔ کیا بابا آ گئے۔ نیناں نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے بابا کو نا پا کر پوچھا۔

ہاں بیٹی تیرے باپ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اللہ قسم جو کھائی تھی۔ دیکھ باپ کی چلی ہوئی لاش کی بانہوں میں اپنی ادھ جلی گڑیا یہ کہتے ہی ماں کی چیخ بلند ہو گئی کیونکہ نیناں سانس لینا بھول گئی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *