Categories
Featured افسانے

“میں مسلمان ہوں”

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دروازہ زور زور سے جیخ رہا تھا۔ مولوی شفیق مغرب کی نماز کے لئے مصلی پر پہلی رکوت کے رکوع میں اللہ تعالی کی سبحانیت کا ذکر کر رہے تھے۔ ان کی مزاج شناس بیوی گرم گرم روٹیاں بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ مولوی صاحب مغرب کی نماز کے فورا بعد کھانا کھا لیتے تھے روزآنہ کا معمول تھا کہ مولوی صاحب بستی کی مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر گھر آتے تو فہمیدہ ان کے لئے میز تیار کر چکتی ہوتی تھی بس جلدی جلدی گرم گرم روٹیاں اتارتی اور مولوی صاحب اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ جن کی عمریں بیس، اٹھارہ اور سولہ سال تھیں، رات کھانا شروع کر دیتے۔

لیکن آج کا دن اپنے ساتھ بہت سی مشکلات لے کر آیا تھا۔ کچھ دنوں سے بستی میں عجیب سے جہ مہ گوئیاں اپنے عروج پر تھیں۔ دو مختلف مزاہپ کے دوستو نے اپنی لڑائی کو مزہبی لڑائی میں بدل دیا تھا۔ اور مزہب جو ہمیشہ سے امن کا پرچار کرتا آیا ہے لیکن اس کے ماننے والے اس کی مخالف سمت میں سفر کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں چاہے جان لے لی جائے چاہے جان دے دی جائے۔ اور یہی بستی کا حال تھا۔اللہ وسایا اور جون مسیح میں کسی بات پر تکرار ہوئی اور اس کے بعد کسی کو نہی معلوم کیا ہوا بات کیسے مزہبی رنگ لئے دلوں کی محبتوں کو چاٹنے لگی۔ بات سے بات ایسی بڑھی کہ پولیس کو درمیاں میں آنا پڑا اور وہ جون مسیح کو لے کر چلی گئی۔ یہ بستی غریبوں کی بستی تھی لیکن اس واقعہ کے بعد عیسائی اور مسلمانوں میں بدل چکی تھی۔ وہ جگہ جہاں غربت کے آنسوں بنا مزہب کے نکلا کرتے تھے اب مزہبی خون میں بدل چکتے تھے۔ دونوں طرف بات بڑھتی جا رہی تھی لیکن پولیس کی مداخلت سے معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا تھا۔ مولوی شفیق اسی بستی کی ایک چھوٹی سی مسجد کا امام تھا۔ مولوی شفیق کو بھی اس معاملے میں گھسیٹنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن سنی سنائی باتوں پر مولوی شفیق کو یقین نہی تھا۔ اس لئے اس نے ہرکارہ بننے کی کوشش مسترد کر دی جب اسے کچھ معلوم ہی نہی تھا تو وہ کیا بتاتا۔

کل شام سے افواہ تھی کہ کچھ شر پسند لوگ، مزہب کے ٹھیکیدار اس بستی کا رخ کریں گے جس سے جان و مال کو شدید خطرہ تھا۔ احتجاج کا یہ طریقہ انسانیت کے عروج پر بھی قبیح لوگوں کا پسندیدہ طریقہ تھا۔ پولیس نے اعلان کروا دیا تھا کہ لوگ اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اپنے گھروں میں نہ رہیں۔ حالات جس نہج پر جا رہے تھے بستی کے رہنے والوں کو اس کا خوب اندازہ تھا۔ کیونکہ ایک شخص کی غلطی کی سزا پوری قوم کو دینا اب تو ایک بین الاقوامی وطیرہ بن چکا تھا۔ رات سے ہی بستی کے لوگوں نے بلا مزہب و تفریق بستی خالی کرنا شروع کر دی تھی اور صبح ہوتے ہوتے تقریبا بستی خالی ہو چکی تھی۔ مولوی شفیق کو بھی ہمسائیوں نے بستی چھوڑنے کا کہا لیکن مولوی شفیق جانتا تھا کہ یقینا بستی خالی کروا کے یہ بستی پر قبضہ کا ایک طریقہ بھی ہو سکتا ہے اور ویسے بھی مولوی شفیق اپنے نام کی طرح شفیق تھے بستی کے تمام لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ یہی بستی ان کا سب کچھ تھی جاتے تو کدھر جاتے۔ اکیلے ہوتے تو کہیں بھی ٹھکانہ کر لیتے تین جوان بیٹیوں کا ساتھ تھا۔ انہیں اور تو کچھ سمجھ نہ آئی ایک گتہ کا ٹکرا لیا اور اس پر موٹے موٹے حروف کے ساتھ “یہ مسلمان کا گھر ہے” لکھ کر دروازے کے ساتھ لٹکا دیا تھا۔ اور پرسکون ہو کر کتاب لکھنے میں مصروف ہو گئے جسکا عنوان ہی رواداری تھا۔

دروازی اس طرح پیٹا جا رہا تھا جیسے آنے والے اسے توڑ کر اندر داخل ہو جائیں گے۔ فہمیدہ نے مولوی شفیق کی طرف دیکھا جو نماز میں مشغول تھا۔ بیٹیا تینوں اکٹھی ہو کر ماں کے قریب آ گئی تھیں۔ فہمیدہ نے بیٹیوں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی اور دروازے کے قریپ چلی گئی۔ دروازہ بچانے کی شدت میں اتنا اضافہ ہو چکا تھا کہ فہمیدہ کی “کون ہے” اس شور میں گم ہو گئی تھی۔ فہمیدہ اور دروازے کے قریپ گئی اور چلا کر بولی کہ مولوی صاحب ابھی نماز پڑھ رہے ہیں ۔ ابھی یہ جملہ مکمل نہی ہوا تھا کہ دروازہ ٹوٹ کر اس کے اوپر گرا۔ دروازے کو آگ لگائی جا چکی تھی اور لکڑی کا دروازہ کب تک مولوی شفیق کے طرح ڈٹا رہتا۔ فہمیدہ پشت کی جانہ گرچکی تھی اوراس کے اوپر دروازہ، لوگ اس دروازے کے اوپر سے گھر کے اندر گھس چکے تھے ان کی ہاتھوں میں آگ برساتی لکڑیا تھیں اور جو آخری آواز فہمیدہ کے کانوں میں پڑی وہ اس کی بیٹیوں کی چیخوں کی آوازیں تھیں۔

مولوی شفیق مخمصے میں تھے کہ نماز توڑ دوں کہ پوری کروں۔ لیکن جب بیٹیوں کی چیخوں کی آواز بلند ہوئی تو مولوی شفیق نے مصلی چھوڑ دیا اور باہر صحن کی طرف لپکے اسی اثنا میں مشتعل ہجوم اندر آ چکا تھا اور چیخ چیخ کر کہ ہرا تھا ہمیں دھوکہ دیتے ہو۔ پکڑو باہر لے چلو۔ کچھ لوگوں نے مولوی شفیق کو پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے باہر کے طرف لے چلے، باہر عجیب منظر تھا ہر طف آگ کے شعلیں بلند تھے دیواریں نوحہ کناں تھی اور سامان غدر کا سا سماں پیش کر رہا تھا۔ مولوی شفیق کو یقین ہو گیا تھا کہ اب ہجوم سے بچنا محال ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے پورے جسم کی طاقت سے چیخ چیخ کر کہنا شروع کیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن کوئی اس صدا کو نہی سن رہا تھا۔ بلکہ کہیں سے پتھر، کہیں سے شعلے ان پر برس رہے تھے اور غربت میں خون کے آنسو چہرے سے رواں تھے۔

مولوی شفیق کو ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھے۔ سب سے پہلا خیال انہیں فہمیدہ اور بیٹیوں کا آیا۔ انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن درد کی ٹھیسوں سے یکدم پستر پر گر گئے۔ آخر کوشش کر کے اٹھے تو ڈاکٹر کمرے میں آ چکا تھا۔” آپ لیٹے رہئے مولوی صاحب” شکر ادا کریں جان بچ گئی ہے۔ شکر “مولوی شفیق نے رنج سے سوچا۔ میری بیوی اور بیٹیاں۔ مولوی شفیق نے درد بھرے لہچے میں ڈاکٹر سے سوال کیا۔
کچھ زخمی عیسائی خواتین دوسرے کمرے میں تو ہیں لیکن کوئی مسلام خاتوں تو نہی لائی گئی ادھر۔ البتہ کچھ لاشیں ضرور مردہ خانے میں ہیں۔ آپ چیک کر لئجئے۔ ڈاکٹر تو یہ کہ کر چلا گیا۔ مولوی صاحب کی بے چینی دیدنی تھی۔ انہوں نے ہمت سے کام لیا ورکمرے سے باہر آ گئے۔ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ انہوں نے مردہ خانے جانے سے سوچا کہ پہلے بستی کی عیسائی خواتین سے ازراہ ہمدردی کر لیں انہوں نے کمرے کا رخ کیا دروازے سے اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ پہلے بسر پر انی کی چھوٹی بیٹی نیم بیہوشی کی حالت میں پڑی ہوئی ملی۔ مولوی صاحب اپنے درد بھول کے اس کے قریپ پہنچ گئے بیٹی نیم بیہوشی کی حالت میں کہ رہی تھی “میں مسلمان نہی ہوں”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *