Categories
طنزومزاح

نیا سال مبارک

آج چھٹی کا دن تھا، باہر کے سارے کام نمٹا کر جب گھر واپس آیا تو اچھا سا، مزیدار سا، معصوم سا پکا ہوا مرغا ہمارا منتظر تھا، خوب جی بھر کر کھایا اور اتنا کھایا کہ دل چاہ رہا تھا آذان دی جائے لیکن اس سے پہلے کہ بے وقت کی راگنی اپنا جلوہ دکھاتی ہم نے سوجا تھکے ماندے آئے ہیں، پیٹ پوجا تو ہو گئی اب کام دوجا شروع کیا جائے اور پرانے وقتوں کے ایک اہم کام کو سر انجام دیا جائے، سنتے تھے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد ہمارے بزرگ قیلولہ کیا کرتے تھے، سو ہم بھی لیٹ گئے اور پھر کیا تھا جونکہ زیادہ کھانے سے جسم بھاری ہو گیا تھا چناچہ روح کو ملا موقعہ اور وہ ہوئی فرار۔
جمعہ کے مبارک دن کی شروعات ہونے والے تھی تاریخ بدلے والی تھی، جنوری 1، 2010 شروع ہونے ہی والی تھی اور ہم نے بھی منصوبوں کی شروعات شروع کی، یہ منصوبہ وہ منصوبہ، ایسا منصوبہ ویسا منصوبہ، ہمارا منصوبہ تمہارا منصوبہ اور ایک پر ایک یعنی نہلہ پہ نہلہ اور دھلہ پہ دھلہ منصوبہ بنایا جانے لگا۔ جب کافی تگ و دو کے بعد سالانہ چارٹ بناچکے، میرا مطلب ہے پیس سے پچیس صفحے برباد کرنے کے بعد ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ اور ہمارے پیارے اور خوبصورت منہ سے نکلا- واہ۔! بس ایک سال کی بات ہے ہم کہاں سے کہاں ہونگیں جہاں سے ہمیں ہماری آواز بھی سنائی نہ دے گی اور سہانے خواب دیکھتے دیکھتے ہم خواب خر اور گوش کے مزے لینے لگے۔
یکدم ایسا لگا جیسے کہ زلزلہ آ گیا ہو، آنکھ کھلی ہمارے لخت جگر آپس میں چنگی مشکیں کر رہے تھے۔ سب سے چھوٹے والا تو ایسے رو رہا تھا جیسے بہادر شاہ ظفر آخری وقتوں میں رویا کرتے تھے، ہم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ہم نے اسے بلایا، بلا کر بٹھایا، بٹھا کر پچکارا مگر اس نے تو جیسے قسم کھا لی تھی کہ جب تک کشمیر آزاد نہی ہو گا چپ نہی ہو گا۔ مگر ہم بھی آخر باپ تھے اس کے، ہم نے اس سے بھی زیادہ چیخ چیخ کررونا شروع کیا تو وہ ہمیں حیران پریشان دیکھنے لگا اور بس پھر کیا تھا ہم نے سب کو لائین حاضر کیا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہئ، ادھر لائیٹ گئی اور ادھر سب بچے بایر کی طرف اس طرح دوڑے جیسے مرغی کے ڈربے سے چھوٹے چھوٹے چوزے صبح صبح دروازہ کھلنے پر دوڑتے ہیں۔
ہوش ٹھکانے آنے پر، ہم نے پھر سے دھیان دینا شروع کیا، جی ہاں جناب، ہم نے پھر سےمنصوبہ بندی شروع کی، بیگم نے سنا تو کافی ناراض ہوئی لیکن ہم نے انہیں سمجھایا کہ یہ نئے سال 2012 کی منصوبہ بندی ہے تم فکر نہ کرو۔ یہ سننا تھاک وہ یکدم غائب ہو گئی جیسے گدھے کے سر سے تاج اور جب وارد ہوئی تو ان کے ہاتھوں میں ہماری پچھلے سال کی ڈائری تھی۔ کبھی ہم ان کو دیکھتے رہے اور کبھی ڈائری کو، اے یاد رفتگاں مجھے تنہا نہ کر ابھی۔ کیا کریں سارے پچھلے کیئے گئے وعدے ہماری ٹانگوں سے لپٹ لپٹ کر رونے لگے، ہم کبھی ایک کو دلاسہ دیتے تھے کبھی دوسرے کو، کبھی ایک کو سینے سے لگاتے تھے کبھی دوسرے کو اور پھر عہد کرتے جاتے تھے اس سال ایسا نہی ہو گا۔اور ہم نے نئی ڈائری اٹھائی اور نئے سرے سے لکھنے کا سوچنے لگے۔کیا ایک اور رات ایسے ہی برباد ہو جائے گی یہ سوچتے سوچتے ہم نے پچھلے سال کے لکھے ہوئے صفحے پرانی ڈائری سے نکالے اور نئی ڈائری میں سجا لئے۔ اور مزے سے پھر سو گئے یہ گاتے گاتے کہ ۔
آپ سب کو نیا سال مبارک ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *