Categories
نوحے

ہر اک قدم پہ سوچتے تھے سبط مصطفے

ہر اک قدم پہ سوچتے تھے سبط مصطفے
لے تو چلا ہوں فو ج عمر سے کہوں گا کیا
نہ مانگنا ہی آتا ہے مجھ کو نہ التجا
منت بھی گر کروں گا تو کیا دیں گے وہ بھلا
پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو میری
پیاسے کی جان جائے گی اور آبرو میری

پہنچے قریب فوج تو گھبرا کے رہ گئے
چاہا کریں سوال، پہ شرما کے رہ گئے
غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کے رہ گئے
چادر پسر کے چہرے سے سرکا کے رہ گئے
آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں
اصغر تمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں

گر میں بقول عمر و شمر، ہوں گناہ گار
یہ تو نہیں کسی کے بھی آگے قصور وار
شش ماہ، بے زبان، نبی زادہ، شیر خوار
ہفتم سے سب کے ساتھ پیاسا ہے بے قرار
سن ہے جو ہم، تو پیاس کا صدمہ زیادہ ہے
مظلوم خود ہوں اور یہ مظلوم زادہ ہے

یہ کون بے زبان ہے، تیمھیں کچھ خیال ہے
در نجف ہے، بانوے بے کس کا لال ہے
لو مان لو، تمھیں قسم ذوالجلال ہے
یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے
پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے
دے دو کہ اس میں ناموری ہے ثواب ہے

پھر ہونٹ بے زبان کے چومے جھکا کے سر
رو کر کہا، جو کہنا تھا وہ کہ چکا پدر
پاقی رہی نہ بات کوئی اے مرے پسر
سوکھی زبان تم بھی دکھا دو نکال کر
پھیری زبان لبوں پہ جو اس نور عین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسین نے

سلامت علی دبیر

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *