Categories
طنزومزاح

ہم نے چوہا بھگایا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میں آفس سے گھر آیا تو بجے ہمیشہ کی طرح بڑے باادب ہو کربیٹھے تھے۔ سارا دن جو اچھل کود کریں میرے گھر آنے پر ایسے معصوم بن کر بیٹھ جاتے تھے جیسے انہوں نے کچھ کیا ہی نہی۔ شام کے سات بجنے والے تھے۔ اور لائٹ جانے والی تھی۔ قسیمہ اور غازیاپنی کلاس ٹو کی کتابیں سنبھالے تھے اور عون اور جون کارٹون مزے لے رہے تھے۔سات بجتے ہی لائٹ چلی گئی۔ میں منہ یاتھ دھو، کپڑے بدل کر جب آیا چارجنگ لائٹ سے پالا پڑا۔ کہ یکدم جون بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ بابا جی بابا جی “چوہے کی آواز آ رہی ہے۔” چوہے کی میں نے حیرانی سے پوچھا۔ یہاں کہاں سے آ گیا۔ میں نے کرسیوں کے نیچے۔ بیڈ کے نیچے، ٹی وی ٹرالی کھسکا کر، ٹیبل کے اردگرد نظر ماری۔ نہی بیٹا جو اس وقت قسیمہ غآزی اور عون کے ساتھ بیڈ پر چڑھے خوف کی حالت میں کھڑے تھے۔ تم سب کو کیا ہوا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ کچھ نہی ہے۔ آرام سے بیٹھ جاؤ۔ لیکن بچوں نے ان سنی کر دی وہ ایسے ہی بیڈ پرکھڑے تھے جیسے ابھی دوڑ لگانے والے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے نا بیٹا۔ کچھ نہی ہے۔ بچے بیٹھ گئے۔ کتاب لے کر میں نے ان سے سننا شروع کر دیا۔ لائٹ نہ ہونے کا بچوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ لکھنا نہی پڑتا۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اچانک چوچی جو چی کی آواز پھر سنائی دی۔ ادھر میرے کان کھڑے ہوئے ادھر بچے پھر سہم کر بیڈ پر کھڑے ہو گئے۔ جون نے چیخیں مارنا شروع کر دیں۔ چوہا آ گیا چوہا آ گیا۔ چپ میں نے انہیں ڈانٹآ۔ چارجنگ لائٹ لے کر میں نے بیڈ کے پچھلی طرف دیکھا۔ ارے یہ کیا۔ اتنا موٹا تازہ چوہا۔ سیاہ رنگ کا اور کانٹوں والا یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اسے گیس کہتے ہیں۔ بڑے آرام سے آرام فرما رہا تھا۔ اتنا موٹا تازہ چوہا دیکھ کر دل میرا بھی کچھ کچھ دھڑکنے لگا۔ میں نے بچوں کو ہانگ لگائی بستر سے نہ اترنا۔ قسیمہ غازی ڈرتے ڈرتے چوہا دیکھنے بیڈ کی پچھلی سائڈ پر آ گئے عون اور جون نے دھاڑیں مار کر رونا شروی کر دیا۔ میں بے بیگم کو آواز دی کہ جلدی سے وائبر لے آؤ اور بچے باہر لے جاؤ۔ لیکن بچوں نے بستر سے اترنے سے انکار کر دیا۔ میں نے وائپر سے چوہے کو ٹھوکا دیا تو وہ خرگوش جیسا کچھوے کی رفتار سے بیڈ کے پیچھے سے نکل کر میری طرف ہی آنے لگا میں نے جلدی سے وائپر پھینک اور بچوں کے ساتھ بستر پر چڑھ گیا۔ بیگم نے حیرانی سے مجھے دیکھا اسی اثنا میں چوہا ٹی وی ٹرالی کے نیچےخراماں خراماں چلتے ہوئے گھس چکا تھا۔ ہی ہی یہ۔۔۔۔۔یہ چوہا چلتا کیسے ہے۔ اتنی آہستہ۔ بچے مجھ سے چمٹ چکے تھے اور زور زور سے پکار رہے تھے بابا موٹا چوہا بابا موٹا چوہا۔ ہٹو پیچے میں نے غصے سے کہا۔ بابا موٹآ چوہا ہے کہا۔ چپ کرو۔میں نے گرجتے ہوئے کہا۔ بیگم جو ٹیبل کے پاس تھی وہ بیڈ کے پاس آئی اور وائپر اٹھانے لگی کہ چوہا ٹی وی ٹرالی سے نکلا اور واپس بیڈ کی طرف آنے لگا اب بیگم کی باری تھی بیڈ پر چڑھنے کہ آپ پہلی بار بیگم کو ہم نے اتنی تیزی سے بیڈ کی جانب آتے دیکھا حالانکہ چوہا نجانے کیوں بڑی آہستہ رفتار سے چل رہا تھا۔ شکر ہے وائپر اٹھا لیا تم نے میں نے اپنا خوف چھپاتے ہوئے کہا۔ ہاں ورنہ چوہا وائپر ہی نہ جائے اس لئے اٹھا لیا۔ بیگم نے کچھ طنزیہ لہچے میں کہا اب بچے مکھے چھوڑ کر ماں کے گرد ہو چکے تھے یہ لیں وائپر اور نکالیں اسے۔ بیگم نے تحمکانہ لہجے میں حکم دیا۔ اور بیگم کے حکم پر تو چوہا بھی شیر بن جائے ہم کہاں کے غازی تھے جو بحث کرتے لیکن خبیث چوہا بھی ہمیں اس وقت ہاتھی دکھائی دیتا تھا۔ کھا کھا کر اتنا موٹا ہو چکا تھااور اوپر سے اس کے جسم پر کانٹے کراہت الگ ہو رہی تھی۔

بچوں کو باہر لے جاؤ۔ میں نے بیگم سے کہا۔ لیکن بچوں نے باہر جانے سے انکار کر دیا۔ جون ماں کی گود میں چڑھ چکا تھا۔ عون نے ماں کا بازو پکڑا ہوا تھا اور غازی نے ڈوپٹہ۔ قسیمہ نے جھٹ سے وائپر لیا اور بولی۔ بابا چوہے کو میں مارتی ہوں۔ نہ بیٹا آپ ادھر ہی رہو۔ میں نے پدرانہ لہجے میں کہا۔ بچوں کے سامنے بہادر تو بننا پڑے گا۔ وائپر لے کر میں بیڈ سے نیچے اترا۔ دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے وائپر مارنے لگا چوہے کو بھی احساس ہو چکا تھا کہ اب خیر نہی۔ اس نے ٹیپل کی جانب جانے کی کوشش کی ہم نے وائپر دے مارا چوہا گولا سا بن گیا۔ ہائےےےےےےےےے میری بیگم نے اب کے چیخ ماری جو بچوں سے زیادہ خطرناک تھی۔ یہ چوہا نہی کچھ او رہے ماریں ماریں زور سے ماریں چوہا گولا بنا چلتا جا رہا تھا اور میں مارتا لیکن چوہے پر کچھ اثر نہی تھا۔ میں نے اسے گھسینٹا شروع کر دیا بچے ماں سمیت دیکھنے کے لئے نیچے اتر آئے لیکن اچانک چوہے نے باہر جانے کی بچائے واپس اند آنے کی کوشش کی وائپر کا پچھلا کونا ٹھا کر کے ٹی وہ پر پڑا، چھناکے کی آواز آئی عون مئرے ساتھ چپک گیا، جون ماں کی گود میں تھا، قسیمہ چلدی سے بیڈ پر چڑھ گئی اور وائپر گھومتے ہوئے غازی کے چہرے سے ٹکرایا کچھ خود کچھ درد سے اس کی کراہیں پورے گھر میں گونچنے لگی۔ باہر کا دروازپیٹا جانے لگا شائد شور کی آوازوں سے محلے والوں نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا تھا۔ بھاگو بھاگو باہر بھاگو میں نے بلند آواز سے کہا سارے باہر کی طرف بھاگے دروازہ کھولا اور گلی میں باہر ساتھ والے انکل دروازہ بچا رہے تھےبیوی بچوں کو بھاگتا دیکھ کروہ بھی بھاگنے لگے اور میں پریشان ہو گیادروازے پر آوازیں دینے لگا کہ اس سے پہلے دیر ہو جائے رک جاؤ۔ بیوی بچوں کو ہمسائے کے گھر بٹھایا اور انکل کے ساتھ مل کر چوہے کو گھسیٹ کر باہر نکالا باہر نکلتے ہی وہ یہ جا وہ جا۔ مڑا پھر بھی نہی کیونکہ جب اسے مارنے لگتے وہ گولا سا بن جاتا۔ اس طرح ہم نے چوہا بھگایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *