Categories
طنزومزاح

ہنر آرام ای

ـــــــــــــــــــــــ
محمد جون سال کا ہو چکا تھا۔ اس کی سالگرہ تھی۔ ہر شے بڑے سلیقے سے ہوئی تیار کی گئی۔ سالگرہ پر سب نے خوب انجوائے کیا۔ جب سب مہمان رخصت ہو گئے تو بچے کو لیکر ہم اس کے ساتھ گفٹ دیکھنے لگے۔

” واہ بہت خوبصورت کارڈ ہے” میں نے کہا۔ میری بیگم نے غصے سے مجھے دیکھا جیسے میں نے کوئی انہونی بات کر دی ہو۔ “خوبصورت کارڈ” کارڈ کا کیا اچار ڈالنا ہے؟ اس نے ہنکارا بھرا

ارے یہ دیکھو، حروف تہجی کا لیپ ٹوپ میں نے بات بدلنے کی کوشش کی۔ یہ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
” ہاں ماموں نے ہی دیا ہو گا۔” بیگم نے پہلے ہی اعلان کر دیا۔

میں اسے بجا بجا کر بیٹے کے ساتھ کھیلے لگا۔ بیگم دوسرے گفٹ کھولنے لگی کہ اچانک ایک ڈبہ کھولتے ہوئے ریپر جون کو لگ گیا۔ اس نے پہلے ایک تان لگائی کہ تان سین یاد آ گئے، خشمگیں نگاہوں سے ماں کو دیکھا اور بڑے جستہ انداز میں بولا “کتی ماما”۔

میرے لئے اپنی ہنسی روکنا مشکل تھا اور ایک زور دار قہقہ میرے حلق سے برآمد ہوکر کمرے کی رنجیدہ فضا میں پھیل گیا۔ اف۔۔تو یہ بھی جانتا ہے میں نے دل میں سوچا اور مسکراہٹ جیسے میرے ہونٹوں پر ثپت ہو چکی تھی۔ میری بیگم کو بہت برا لگا اور اس نے پہلے گھور کر دیکھا اور اس کے بعد غصے سے اٹھی، پاؤں پٹخا اور باہر جانے لگی۔

اس سے پہلے کہ ایک اچھا دن کا انجام بہت برا ہوتا۔ میں نے اسے ٹھیک کرنے کا سوچا۔۔۔میں اٹھا اور بیگم کے پاس جا کر بولا۔” بچہ ہے ایسے ہی کہ دیا تم تو برا منا گئی۔

وہ تو بچہ ہے لیکن آپ تو نہی” ہنسی جیسے رک ہی نہی رہی تھی۔ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ بیگم کا وار کامیاب ہوتا۔ جون نے حروف والا لیپ ٹاپ نیجے پھینگا اور بولا “کتے بابا بچاتے کیوں نہیں”

بچہ ہے ” میری بیگم نے آنسوؤں کے درمیان قہقہ لگاتے ہوئے کہا اور میں وزیدہ نگاہوں سے لیپ ٹاپ اٹھانے لگ گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *